یہ کون سخی ہیں جن کے لہو کی اشرفیاں چھن چھن کر

یہ کون لوگ ہیں۔ یہ جن میں سے اگر جو جاوداں ہیں وہ پون صدی کے لگ بھگ یا اس سے بھی زیادہ عمر کے ہیں۔ جاوداں اس لئے کہہ رہا ہوں ان کو کہ بقیدِ حیات تو ہم تم اور سبھی ہوتے ہیں۔ یہ لوگ سدا حیات بھی ہیں اور جاوداں بھی۔ یہ سداجوان بھی ہیں، جب بھی انقلابی جوانی آتی ہے روپ بدل کر واپس آتے ہیں۔ ڈاکٹر ادیب رضوی اور ڈاکٹر ہارون جیسے لوگ۔ یا پھر ڈاکٹر محمد سرور اورانکے جیسے کئی ساتھی۔ کامریڈ۔ یہ لوگ کل کی اور شاید پاکستان کی سب سے پہلی اور پرانی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جگریلے رہنما۔ بلکہ جگرسٹ۔ اسی ہفتے طلبہ کی ان قربانیوں کے دن تھے۔ سات اور آٹھ جنوری، انیس سو تریپن۔ جب کراچی کی سڑکیں نوآزاد مملکت خداداد کے دارالحکومت میں خون سے نہلائی گئی تھیں۔

یہ کون سخی ہیں جن کے لہو کی اشرفیاں چھن چھن کر

مندرجہ بالا نظم فیض صاحب نے لکھی تو ایرانی طلبہ کے نام تھی لیکن یہ ڈی ایس ایف کے ان تحریکی طلبہ پر بھی پوری اترتی ہے جنہوں نے اس دن لیلائے وطن کے عارضوں کو اپنے جوان و گرم لہو سے گلنار کیا تھا۔

پاکستان اس حساب اور حوالے سے بہت خوش نصیب ہے کہ جمہوریت کی بحالی کی دنیا میں مضبوط اور منظم تحریکیں بھی یہاں چلی ہیں تو طلبہ کسان مزدور تحریکیں بھی۔ نیز یہ سب کچھ پاکستان کے قیام کے چند سال میں ہی ممکن ہوا تھا جب کراچی سطح پر انٹر کا لج باڈیز بنی تھی اس سے قبل یا بعد میں طلبہ اور بیروزگار نوجوانوں نے اپنے حقوق کیلئے ایک طلبہ تنظیم ڈی ایس ایف قائم کی تھی۔ جس کے بنیادی رکن اور رہنمائوں میں ڈائو میڈیکل کالج کے محمد سرور (بینا سرور کے ابا)، ادیب الحسن رضوی، ہارون احمد شامل تھے۔ سات جنوری انیس سو تریپن کو ان طلبہ نے داخلہ فیس گھٹانےاور ڈگری یافتہ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی جیسے مطالبات منوانے کیلئے جلوس نکالا تھا۔ یہ طلبہ وزیر تعلیم مشتاق گورمانی سے ملنا چاہتے تھے۔ لیکن ان احتجاجی پرامن نوجوانوں پر سیدھی گولیاں برسائی گئیں۔ پس ثابت ہوا کہ ملک کے بانی کی وفات کے فوراً بعد نوآزاد پاکستان کے دیسی نوآبادیاتی نئے حکمران لاٹھی گولی کی سرکار بنانے کا تب ہی فیصلہ کر چکے تھے۔ اسی لئے تو فیض نے ان نوجوانوں اور انکے ساتھ ہونیوالے قضیے پر لکھا تھا:

وہ جو اصحابِ طبل و علم

کے دروں پر کتاب اور قلم

کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے

وہ معصوم جو بھولے پن میں

وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن

لے کے پہنچے جہاں

بٹ رہے تھے گھٹا ٹوپ بے انت راتوں کے سائے

سات جنوری کو گولی چلی اور کئی طلبہ زخمی اور کچھ ہلاک ہوئے۔ مرنیوالوں میں ایک بیروزگار نوجوان بھی شامل تھا جس کی جیب میں کالج کی ڈگری تھی۔ ایسی ریاستی دہشت گردی کیخلاف دوسرے روز جب طلبہ نے سوگ میں جلوس نکالا تو اس سےاور بھی سختی سے نمٹا گیا جسکے نتیجے میں آٹھ مزید طلبہ ہلاک ہوئے۔ تشدد پورے شہر میں پھیل گیا۔ جس میں وزیر تعلیم کی سرکاری گاڑی بھی نذر آتش ہوئی۔ مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ کراچی کے طلبہ کے قتل عام پر احتجاج میں پورے ملک کے طلبہ نکل آئے تھے۔ ڈھاکہ سے پنوں عاقل تک۔ ڈاکٹر محمد سرور، جمال نقوی، ولایت علی، ہاشمی، محمد ہارون (اب ملک کے مشہور ماہر نفسیات) گرفتار ہوگئے، ڈی ایس ایف پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن طلبہ تحریک رکی نہیں۔ یہ درحقیقت ملک میں بائیں بازو کی طلبہ تحریک کی داغ بیل تھی۔

پھر آئی سی بی یا انٹر کالجیٹ باڈیز بنیں جو آگے چل کر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی شکل اختیار کر گئیں۔ یہی ڈاکٹر ہارون احمد، ڈاکٹر ہاشمی، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی این ایس ایف کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھے۔ این ایس ایف کی پہلی اور دوسری جنریشن کے لوگ آج بھی پورے ملک میں اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی میں بڑے نام پیدا کیے ہوئے ہیں۔ این ایس ایف کراچی سے کشمیر تک اور کاکسس بازار تک قائم ہو چکی تھی۔ یہ جو کشمیری رہنما مقبول بھٹ تھے یہ بھی شروع میں این ایس ایف سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ رشید حسن خان تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب خان کی کابینہ سے علیحدگی کے بعد پہلی بار ڈائو میڈیکل کالج میں جلسے سے خطاب کرنے آئے تھے۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں بھی این ایس ایف بہت فعال تھی جس میں غالباً ہمارے مربی دوست و ساتھی علی احمد خان بھی شامل تھے۔ وہاں بنگال اسٹوڈنٹس فیڈریشن بھی تھی۔ پھر اسی این ایس ایف کے ہوتے سندھ این ایس ایف یا سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن بھی جام ساقی مہر حسین شاہ، میر تھیبو، ہدایت حسین، عنایت کاشمیری کی رہنمائی میں بنی۔ کبھی سوچا کہ طلبہ کو پمفلٹ لکھنے پر سات سال قید اور پندرہ پندرہ کوڑوں کی سزائیں ہوئیں۔ ایس این ایس ایف کے امداد چانڈیو، شیر محمد منگریو، محمد خان سولنگی اور کئی دیگر طلبہ تنظیموں کے رہنمائوں اور کارکنوں کے ساتھ ایسا ہوا تھا۔ ایس این ایس ایف جو بعد میں ملک گیر سطح پر ڈی ایس ایف بنی کے بانی صدر نذیر عباسی کو جنرل ضیا کی آمریت میں تشدد کرکے ہلاک کردیا گیا۔ ملک میں پیپلز پارٹی کی پی ایس ایف، سندھی، بلوچ، پشتون، سرائیکی، پنجابی، گلگتی، کشمیری، مہاجر، قوم پرست طلبہ سیاست کی اپنی قربانیاں اور جدوجہد ہے اس پر پھر کبھی سہی۔ دائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔

این ایس ایف کا تب وہ گمنام فعال کارکن اب شاید کسے یاد ہو یا کوئی جانتا بھی ہو جس نے مجھے 1974 میں ڈی ایس ایف کے طلبہ کی آٹھ جنوری کو قربانیوں کی داستان سنائی تھی۔ اب وہ ہیمراج نہ جانے کہاں ہوگا۔ شاید جلاوطنی میں بوڑھا ہوگیا ہو۔ اب میں ہیمراج کی عمر کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو انقلابی ڈھول تاشے پیٹتے اور پھریرے لہراتے اسلام آباد، کراچی اور لاہور کی سڑکوں پہ نعرے لگاتے دیکھتا ہوں کہ ’’ہم طلبہ بچانے نکلے ہیں آئو ہمارے ساتھ چلو‘‘ تو سوچتا ہوں کہ کاش آمریتیں اور انکی کٹھ پتلی حکومتیں طلبہ یونیوں پر پابندیاں نہ لگاتیں تو ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ کہ انہی طلبہ کا یہ بھی تو نعرہ ہوتا تھا ’’ہم ملک بچانے نکلے ہیں آئو ہمارے ساتھ چلو‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *