تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد سرکاری افسران پرامید تھے کہ سیاسی مداخلت ختم ہوجائے گی،عہدے میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر دئیے جائیں گے۔مگر معاملہ اس کے الٹ چل رہا ہے۔خلاف میرٹ لگنے والے افسران نے من مانی کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔کچھ سرکاری بابو کمزور سیاسی حکومت کا بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں ایسے ایماندار اور محنتی افسران کی کوئی قدر نہیں ہے۔ یہاں پر حق دارکو اس کا حق نہیں ملتا۔سابق ادوار حکومت کی طرح حالیہ حکومت نے بھی سرکاری افسران کی تعیناتیوں میں میرٹ کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔من پسند افسران کو خلاف میرٹ عہدے دینے کی روایت برقرار ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجا ب میں گورننس کا معیار دن بدن نیچے جارہا ہے۔ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ ہو یا پھر آئی جی پنجاب کی تبدیلی اور پھر ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کا ڈرامائی تبادلہ۔ایسے اقدامات سے حکومت کو مسلسل نقصان ہورہا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار ایک شریف آدمی ہیں مگر بدقسمتی سے ان کے اپنے ضلع میں ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان گریڈ 18کا افسر ہے جبکہ یہ گریڈ20کی پوزیشن ہے۔عمومی پریکٹس رہی ہے کہ گریڈ 19کے افسر کو گریڈ 20کی پوزیشن پر تعینات کردیا جاتا ہے مگر ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ گریڈ 18کا افسر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں ڈپٹی کمشنر ہو۔ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں مگر ڈیرہ غازی خان کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ یہ وزیراعلیٰ پنجاب کا آبائی علاقہ ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر راحیل بھی ایک محنتی اور ایماندار افسر ہیں۔کئی سال پہلے ڈیڑہ غازی خان میں پولیٹکل ایجنٹ تعینات رہے ہیں۔شاید تبھی سے وزیراعلیٰ پنجاب کے پسندیدہ ہیں۔کیونکہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی جنم بھومی بارتھی ہے اور بارتھی ڈیرہ غازی خان کے ٹرائبل ایریا میں شمار ہوتا ہے۔ٹرائبل ایریا کا تمام نظام و انصرام پولیٹکل ایجنٹ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ پورے علاقے کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے۔بہر حال ڈاکٹر راحیل خود بھی جنوبی پنجاب کے رہنے والے ہیں۔انہیں توجہ دیتے ہوئے جنوبی پنجاب میں قابل اور باصلاحیت افسران لگانے چاہئیں۔وزیر اعلیٰ کے آبائی علاقے میں تو خاص طور پر صوبے کا منجھا ہوا افسرڈی سی ہونا چاہئے۔تاکہ وہ عوامی توقعات کے مطابق خدمات سرانجام دے سکے۔

90کی دہائی میں منظور وٹو وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔منظور وٹو اپنی آبائی سیٹ ہارگئے تھے مگر تاندلیا نوالہ سے جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔منظور وٹو نے چیف سیکرٹری پنجاب کو بلایااور کہا کہ تاندلیا نوالہ کے لوگوں کا مجھ پر بڑا احسان ہے ۔انہی کی وجہ سے میں اسمبلی میں پہنچا ہوں ۔میرے اپنے لوگوں نے تو مجھے مسترد کردیا مگر آج اگر میں وزیراعلیٰ پنجاب ہو ں تو تاندلیا نوالہ کے لوگوں کی وجہ سے ہوں کہ انہوں نے مجھے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب کرکے ایوان میں بھیجا۔براہ کرم تاندلیا نوالہ میں بہت ہی قابل اور ایماندار افسر کو اسسٹنٹ کمشنر تعینات کریں تاکہ میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروا کر لوگوں کا قرض اتار سکوں۔اگلے روز چیف سیکرٹری پنجاب نے تین افسران کے انٹرویو کروائے اور ان میں سے بہترین افسر کو اسسٹنٹ کمشنر تاندلیا نوالہ لگادیا گیا۔اس افسر کو وزیراعلیٰ کی ہدایت تھی کہ آپ ہر طرح کے معاملے میں مجھ سے براہ راست رابطہ کرسکتے ہیں ،میری بس یہی ہدایت ہے کہ ترقیاتی کاموں کا منہ تاندلیا نوالہ کی طرف کھول دیں۔یوں منظور وٹو کے دور میں تاندلیا نوالہ تحصیل میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے۔بعد میں یہی اسسٹنٹ کمشنر تاندلیا نوالہ سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری اور دیگر اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔مگر یہ افسر بتاتے ہیں کہ باقی پنجاب کا مجھے پتہ نہیں مگر تاندلیا نوالہ کے حوالے سے وزیراعلیٰ منظور وٹو کی ایمانداری اور اخلاص کی میں گواہی دے سکتا ہوں۔اسی طرح آج وزیراعلیٰ پنجاب کے قریبی لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تونسہ کا اسسٹنٹ کمشنر،ڈیرہ غازی خان کا ڈپٹی کمشنر اور پولیٹکل ایجنٹ ایسے افسران کو تعینات کریں ،جو صحیح معنوں میں بارتھی کے لوگوں کا قرض اتارسکیں ،جنہوں نے سردار عثمان بزدار کو ایم پی اے منتخب کرکے پنجا ب کے وزیراعلیٰ بننے میں راہ ہموا ر کی۔باقی ہر حکمران کو یہ بات سمجھنی چاہئےکہ

آج جو صاحب مسند ہیں ،کل نہیں ہوں گے

کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

کل صبح ہی کی بات ہے کہ دروازے پر ہونے والی دستک نے نیند سے بیدار کردیا۔گزشتہ ہفتے سے شہراقتدا ر میں سردی نے اپنے رنگ جمانا شروع کردئیے ہیں۔بہرحال گرم بستر چھوڑ کر چبھتی ہوئی سردی میں دروازے تک پہنچا تو کوئی شخص دروازے کے نیچے سے خاکی لفافہ ڈال کر جاچکا تھا۔زمین پر پڑے ہوئے لفافے کو اٹھایا اور واپس کمرے میں آگیا۔خاکی لفافے پر وزارت پارلیمانی امور کا رجسٹری نمبر لکھا ہوا تھا۔لفافے میں 202صفحات پر مشتمل کتاب موجود تھی۔کتاب ہاتھ میں لے کر Reading Tableپر بیٹھ گیا۔کتاب کا عنوان ’’بے احتیاطیاں‘‘ تھا ،جبکہ اس کے خالق ایڈیشنل سیکرٹری پارلیمانی امور محمد شکیل ملک ہیں۔محمد شکیل ملک سیکرٹریٹ گروپ کے گریڈ 21کے افسر ہیںاور اردو ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔طنز و مزاح سے بھرپور کتاب پڑھ کر خوشی ہوئی کہ پاکستان سول سروس میں ایسے افسران بھی موجود ہیں ،جو روایتی سرکاری کاموں سے ہٹ کر پڑھنے اور لکھنے میں بھی لگاؤ رکھتے ہیں۔ پروفیسر مشکور،سنجیدہ خان محتاط اور فولاد خان نازک جیسے دلچسپ کرداروں پر مشتمل یہ کتاب بھرپور مطالعہ کا تقاضا کرتی ہے۔سرکاری نوکری کی مصروفیات کے باوجود فراغت میں مطالعہ کرنا اور اچھی تصانیف تحریر کرنا قابل تعریف عمل ہے۔مگرایسے افسران کو جان بوجھ کر کونے کھدروں میں دھکیل دیا جاتا ہے کہ کہیں ان کی قابلیت اور دیانتداری ملک و قوم کے کام نہ آجائے۔حکومت وقت کو چاہئےکہ سرکاری افسران کی تعیناتیوں میں میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھیں۔حق دار کو اس کا حق دیں۔کئی قابل اور محنتی افسران آج بھی حکومت وقت کی نظر کرم کے منتظر ہیں۔تحریک انصاف کو سابق حکومتوں کی روش چھوڑنا ہوگی اور سرکاری تعیناتیوں کے فیصلے چیف سیکرٹری آفس اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے دفتر میں ہونے چاہئیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *