اچانک سپریم کورٹ آف پاکستان سے نکلتے ہوئے ایبٹ آباد کی سکینہ سے ملاقات ہوگئی۔ چار سال میں سکینہ مکمل بوڑھی ہوچکی تھی۔ کالے بالوں کی جگہ سفیدی نے لے لی تھی۔ مگر آج یہ وہ سکینہ نہیں تھی۔ چھ سال کی تگ و دو نے سکینہ کی جوانی تو چھین لی تھی،مگر آج سکینہ بہت پر سکون اور خو ش نظر آرہی تھی۔ آج کاغذوں کا تھیلا اس کے ہمراہ نہیں تھا بلکہ ایک ننھا منا خوبصور ت سا بچہ اس نے اٹھایا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر خوشی کے مارے سکینہ کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ وہ بس اتنا کہہ پائی کہ بیٹا میرا اسلم لوٹ آیا ہے اور یہ اسلم کا ہی بیٹا ہے۔ سکینہ سے ہمیشہ سپریم کورٹ یا پھر لاپتا افراد کمیشن کی سماعت کے بعد ملاقات ہوجاتی تھی۔ گزشتہ کئی سالوں سے سکینہ کا بیٹا لاپتا تھا۔ آج سے کئی سال پہلے25لاپتا افراد کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کے کورٹ روم نمبر 1میں سکینہ سے ملاقات ہوگئی۔ اس خاکسار نے کئی مرتبہ سکینہ کو انصاف کے حصول کے لئے ایڑیاں رگڑتے دیکھا۔ چند سال پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان کی پارکنگ میں کھڑے کھڑے میں نے سکینہ کو کہا کہ عدالتوں کے چکر لگا لگا کر اور وکیلوں کی فیسیںدیتے دیتے تھک جائیں گی۔ بہتر یہ ہے کہ لاپتا افراد کمیشن میں درخواست دے دیں۔ سنا ہے اس کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال غریب پرور انسان ہیں۔ آپکی دادرسی ہوگی۔ آج سکینہ کی داد رسی ہوچکی تھی۔ پتا نہیں ایسی کتنی سکینہ اور اسلم ہونگے جو جسٹس جاوید اقبال کو جھولیاںاٹھا اٹھا کر دعائیں دیتے ہونگے۔ کیونکہ عدالتی کیرئیر سے ہٹ کر جسٹس جاوید اقبال نے لاپتا افراد کے لئے جو کچھ کیا ہے۔ اس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ بطور جج تو جسٹس جاوید اقبال لوگوں کو سزا دے سکتے تھے اور یا پھر معاف کرسکتے تھے۔ مگر جس ماں کا جگر گوشہ لاپتا ہوجاتا ہے،اس کو نہ یہ پتا ہوتا کہ میرے بیٹے کو سزا ہوگئی ہے اور وہ مرگیا ہے یا پھروہ زندہ ہے بلکہ وہ انتظار کی سولی پر لٹک رہی ہوتی ہے۔ ایسی ماں کو اس کے بیٹے سے ملوانا اصل انصاف ہے۔ سکینہ سے طویل گفتگو کرنا چاہتا تھا مگر کور ٹ روم نمبر 1میں نوازشریف او ر مریم نواز کے خلاف نیب کی اپیلوں پر سماعت شروع ہونے والی تھی۔ چلتے چلتے سکینہ سے پوچھا کہ جسٹس جاوید اقبال تو چیئرمین نیب بن گئے ہیں۔ کہنے لگی کہ بیٹا اللہ دونوں جہانوں میں اس کا بھلا کرے،نیب کی سربراہی کے باوجود انہوں نے لاپتا افراد کمیشن میں کیسوں کی سماعت کرنا نہیں چھوڑی،بلکہ پہلے سے زیادہ توجہ اور تیزی سے مقدمات نمٹارہے ہیں۔ مجھے سکینہ سے مل کر شدت سے احساس ہوا کہ واقعی لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے جسٹس جاوید اقبال کی خدمات قابل تعریف ہیں۔

ایسے واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ کچھ لوگ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ جس شعبے میں چلے جائیںبہترین کارکردگی ان کی زندگی کا مقصد ہوتی ہے۔ کام،کام اور صرف کام ہی ان کا سرمایہ حیات ہوتا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ جہاں پر بھی گئے ہمیشہ نیک نامی اور عزت لے کر لوٹے۔ بطور وکیل بے داغ کیرئیر پر رشک کیا جاسکتا ہے۔ جج بنے تو ہمیشہ قانون کی بالادستی کو مدنظر رکھا،طاقتور اور کمزور کے لئے الگ الگ انصاف کی روایت ختم کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر بیٹھ کر بھی انصاف کے ترازو کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ ہمیشہ حق داروں کو حق فراہم کرنے کے لئے اقدامات کئے۔ ایبٹ آباد کمیشن سے لے کر لاپتا افراد اور اب نیب کی سربراہی۔ میراذاتی مشاہدہ رہا ہے کہ جو مظلوم ایک مرتبہ جسٹس جاوید اقبال تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا،آپ ہمیشہ اس کے لئے خود سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہوگئے۔ اپنے ادارے کے افراد کے خلاف بھی شکایات پر سخت نوٹس لیا۔ اختیارات سے تجاوز کرنے پر اپنے کسی ماتحت کوبچانے کے بجائے مظلوم سائل کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ ان کی اولین ترجیح ہمیشہ انصاف فراہم کرنا رہی۔ کیونکہ یہ انصاف ہی تھا جس نے اسلام کی وسعت کو عرب کے ایک کونے سے دنیا کے آخری کونے تک پھیلانے میں اہم کردار اداکیا۔ نامساعد حالات کے باوجود یہ درویش صفت منصف آج بھی اپنا کام کرنے میں مصروف ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جسٹس جاوید اقبال جیسے لوگوں کی وجہ سے وہ تمام لوگ جو من مانی کو اپنا شعار سمجھتے تھے،سوچنے پر مجبور ہوئے کہ غریب کی داد رسی ابھی بھی اس ملک میں ممکن ہے۔

آج صبح چند اعداد و شمار کا جائزہ لے رہا تھا تو حیرانی ہوئی کہ اکتوبر 2018تک لاپتا افراد کمیشن کو اب تک ساڑھے پانچ ہزا ر کے قریب درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ جن میں سے لاپتا افراد کمیشن اکتوبر کے اختتام تک 3633کیسز کو نمٹا چکا ہے۔ صرف اکتوبر2018 میں لاہور، کراچی اور اسلام آبادمیں537سماعتیں کوئی غیرمعمولی شخص ہی کرسکتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ جسٹس جاوید اقبال نے 3633افراد کی گھروں کو باحفاظت واپسی یقینی بنائی ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ جسٹس جاوید اقبال نے اس دوران کسی بھی طرح سے نیب کے کام کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ جمعہ کو نیب کے دفتر سے فارغ ہونے کے بعد جسٹس جاوید اقبال کی اولین ترجیح ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت کرلیں۔ یہ وہ مین آف ایکشن ہے جس کے دن کا آغاز صبح سات بجے اور اختتام رات بارہ بجے ہوتا ہے۔ واجبی سی تنخوا ہ لے کر بغیر کسی لالچ کے کام کرتا ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن کے دوران تنخواہ کی مد میں 7ملین سے زائد معاوضہ ملتا ہے تو شکریہ کے ساتھ واپس کردیتا ہے کہ میں قومی خزانے پر بوجھ نہیں بننا چاہتا۔ گزشتہ ایک سال میں جسٹس جاوید اقبال کی وجہ سے قومی خزانے کو 2580ملین واپس ملے ہیں۔ سارک ممالک نیب کی کارکردگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ عوامی رائے کا کوئی بھی سروے اٹھاکر دیکھ لیں،لوگ جسٹس جاوید اقبال کے نیب سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ مگر دوسری جانب آج کل کچھ شریف افسران کو بھی نیب کے کچھ اہلکار ذاتی مقاصد کے لئے ناجائز تنگ کرتے ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال کو نیب کے ایسے افسران کے خلاف سخت ایکشن لے کر یہ راستہ بند کرنا چاہئے۔ آج کچھ لوگ مین آف ایکشن پر تنقید بھی کرتے ہیں مگر ترقی پذیر معاشروں کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل شخص پر تنقید کی جاتی ہے۔ ایسے مین آف ایکشن کی قدر ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *