عمران خان: سول سروس ریفارمز

ہر سال تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب نوجوان پاکستان کے ہر علاقے سے سول سروسز اکیڈیمی لاہور میں ٹریننگ کے لیے آتے ہیں۔ گزشتہ تقریباً چالیس سال سے یہ ادارہ ایک دوردراز علاقے والٹن میں قائم ہے۔ اسے مال روڈ کی خوبصورت اور وسیع و عریض عمارت سے یہاں اس ویرانے میں منتقل کرنے کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہے کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد اس کے چند ایک مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ قدیم سول سروس کے ڈھانچے کو تہہ و بالا کر کے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتا تھا۔ اس زمانے تک سول سروس آف پاکستان اپنی پیش رو انڈین سول سروس کے نقشِ قدم پر چلتی تھی اور اس کے افسران کو وہی تحفظ اور مراعات حاصل تھیں جو غلام ہندوستان میں تاج برطانیہ نے انہیں دے رکھی تھیں۔ یہ ایک ایسا مربوط انتظامی ڈھانچہ تھا جس نے انگریز اقتدار کو برصغیر میں مستحکم کیا۔ اس سول سروس کو وہ تمام کام سونپے گئے جو ریاست کے ذمہ ہوتے ہیں۔ اس وقت تک ریاست کے ذمے دو بنیادی کام تھے، ایک امن عامہ کا قیام اور دوسرا انصاف کی فراہمی۔ لیکن انگریز کی قائم کردہ سول سروس نے جدید ریاست کے دیگر کام بھی اپنے ذمے لے لیے۔ ان میں سب سے اہم مواصلات تھا۔ ریلوے لائن بچھائی گئی، ڈاک کی ترسیل کا مربوط نظام قائم ہوا، قدیم سڑکوں کو پختہ کیا گیا۔ رابطے کے لیے ٹیلیفون اور ٹیلی گراف کا آغاز ہوا اور ان تمام سہولیات کی فراہمی کے لیے الگ الگ محکمے قائم ہوئے جو اس سول سروس کی نگرانی میں دے دیئے گئے۔ ڈپٹی کمشنر کا دفتر وہ اکائی تھی جو اپنے اندر ایک ننھے منے وائسرائے کا اختیار رکھتی تھی۔ اس شخص کی ذات کے اندر لاتعداد اختیارات جمع کر دیئے گئے تھے لیکن شروع شروع میں اسے ڈپٹی کلکٹر کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ کیونکہ اس کا بنیادی کام مالیہ (Land Revenue)وصول کرنا تھا۔ اس کام کے لیے ریاست نے تمام زمینوں کا ایک ریکارڈ مرتب کیا جو اس قدر شاندار تھا کہ آج کے دور کے گوگل میپ اور ان کی پیمائشوں کے درمیان ایک انچ کا بھی فرق نہیں ہے۔ برصغیر پاک و ہند کاریونیو ریکارڈ دنیا کے بہترین مسودوں میں سے ایک ہے۔ ایک گائوں یا موضع کا ریکارڈ اٹھا لیں، آپ کو اس میں آبادی دیہہ کے نام پر رہائشی مکانوں کی تفصیل ملے گی، کھیتوں کی ملکیت، ان پر کام کرنے والے مزارعوں کے نام، فصلوں کی نوعیت اور سالانہ کھیپ، گائوں کی آبادی کے مختلف پیشوں کی تفصیل، پانی کے ذرائع اور ان سب کے ساتھ ساتھ ایک’’رجسٹرڈ واجب الارض‘‘ موجود ہوتا ہے جس میں گائوں کے رسم و رواج، چرا گاہیں اور اجتماعی طرزِ زندگی کے اصول درج ہوتے ہیں۔ اسی ریکارڈ کی بنیاد پر زمینداروں سے مالیہ وصول کیا جاتا تھا۔ شروع شروع میں زمینیں بارانی ہوتیں، یعنی بارش کے پانی سے فصل اگانے والی، یا پھر دریائوں کے کنارے کھیت آباد ہوتے، کنوئوں سے فصل کی آبیاری کا نظام بھی صدیوں سے موجود تھا، لیکن مالیہ بڑھانے اور ریاست کے وسائل میں اضافہ کرنے کے لیے اسی سول سروس نے نہری نظام کا آغاز کیا اور دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام وجود میں آ گیا، وہ زمینیں جو کبھی جنگلات اور ویرانے تصور ہوتے تھے ان کے درمیان دریائوں کا پانی نہروں کی صورت گزرا تو لائل پور(فیصل آباد) اور منٹگمری(ساہیوال) جیسے شہر اور لاتعداد ملحقہ دیہات وجود میں آ گئے۔ ایک بہت بڑا محکمہ انہار وجود میں آیا جسے آج کے دور میں اریگیشن کہتے ہیں اور اس کی باگ ڈور بھی اسی سول سروس کے ہاتھ میں دے دی گئی۔ سرکار کے ذمے اس وقت تک صحتِ عامہ تھی اور نہ تعلیم، یہ دونوں کام عوام خود کرتے تھے۔ حکومتیں صرف ان اساتذہ یا معلمین کے وظیفے مقرر کر دیتی تھی جو ہر گائوں میں تعلیم دیتے تھے۔ صحت تو حکماء کے ذمہ تھی اور وہ مناسب داموں پر لوگوں کو یہ سہولت فراہم کرتے تھے لیکن پھر اسی سول سروس کے زیر سایہ سکول، کالج، ڈسپنسریاں، ہسپتال، یہاں تک کہ جانوروں کے ہسپتال تک کھولے گئے، محکمہ تعلیم، صحت اور اینیمل ہسبنڈری وجود میں آ گئے۔ ان میں اساتذہ، ڈاکٹر اور دیگر عملہ کام کرتا تھا لیکن ان تمام محکموں کو بہتر طریقے پر چلانے اور انہیں عوام کے لیے فائدہ مند بنانے کا ذمہ بھی اسی سول سروس کے پاس تھا۔ یہ تھی وہ حکومت جس کا ہر ضلع میں ایک سربراہ ہوتا تھا جسے ڈپٹی کلکٹر کہتے تھے۔ بعد میں اس کی کلغی میں کئی ستارے ٹانکے گئے تو یہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ڈپٹی کمشنر بھی کہلانے لگا۔ برصغیر پاک و ہند کو چونکہ ایک شاہانہ شان و شوکت سے ہمیشہ واسطہ رہا تھا۔ راجوں مہاراجوں سے لے کر سلاطینِ دلی اور مغلیہ کروفر تک لوگ وسیع و عریض محلات، نوکر چاکروں کی فوج اور ہٹو بچو کی صدائوں سے مرعوب ہوتے تھے۔اسی لیے اس عادت کو سامنے رکھتے ہوئے انگریز نے ان ڈپٹی کمشنروں کو بڑے بڑے گھر بنا کر دیئے جن کی فصیلوں کے اندر جھانکنا تک نا ممکن تھا اور باہر مسلح پہریدار اس کے رعب کو قائم کرنے کیلیے کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن اس سارے کروفر اور رعب و دبدبے کے باوجود اس سول سروس کے افراد میں کچھ ایسی خصوصیات تھیں جنہوں نے برصغیر میں انگریز کے اقتدار کو دوام بخشا، ورنہ صرف پچیس تیس ہزار گوروں کے ساتھ کوئی اس وقت کے چالیس کروڑ عوام پر حکومت کر سکتا تھا۔ عوام اگر انگریز حکومت سے مطمئن نہ ہوتے تو ان تیس ہزار انگریزوں کی چشم زدن میں تکا بوٹی کر دیتے۔
انگریز حکومت کو قائم رکھنے اور دوام بخشنے میں اس سول سروس کی جن خصوصیات کا دخل تھا ان میں سب سے اہم دیانت اور کرپشن سے پاک ہونا تھا۔ انگریز کے زمانے میں ایک معمولی اہلکار کی معمولی سی کرپشن بھی معاف نہیں ہوتی تھی۔ دوسری قومی قانون کی بالادستی۔ جو قوانین مقرر کر دیئے گئے تھے، ان کے برخلاف ملکۂ برطانیہ بھی ڈپٹی کمشنر کو حکم نہیں دے سکتی تھی، تیسری خوبی یہ کہ کوئی گورنر،وائسرائے یا تاج برطانیہ خود کسی آفیسر کو محض ناراضگی یا رنجش کی بنیاد پر نکال نہیں سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مفاد عامہ کے تمام کام، سہولیات کی فراہمی، امنِ عامہ کا قیام اور ہر وقت انصاف اس سول سروس کا طرہ امتیاز تھا، لیکن کیا صرف قوانین بنانے یا تحفظ دینے اور بڑے بڑے گھر دینے سے یہ سب کچھ حاصل کیا گیا؟ ہرگز نہیں۔ انگریز نے جب سول سرول کو تخلیق کیا تو اس نے ایک تصور ذہن میں رکھا کہ اس سول سروس کے فرد کو خریدا نہ جا سکے۔ اسے مالی طور پر مستحکم ہونا چاہیے۔ 1920ء میں ایک ڈپٹی کمشنر کی تنخواہ دوہزار روپے ماہانہ ہوتی تھی، جبکہ اتنی ہی تنخواہ ایک سیشن جج لیتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک نئی کار ایک ہزار سے پندرہ سو روپے میں آ جاتی تھی اور ایک کلرک یا مدرس کی تنخواہ بارہ سے پندرہ روپے ماہوار ہوتی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کے اس دفتر میں بیٹھے یا گھر میں مقیم اس فرد کو اپنی اولاد، گھر بار یا اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی فکر لاحق نہ تھی۔ اسے خریدنے کیلئے ہمالیہ جیسا دل گردہ اور قارون کا خزانہ چاہیے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سول سروس پر اور ہزار الزامات لگائے گئے ہوں، دو الزامات نہیں تھے، ایک یہ کہ وہ بددیانت ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ نا اہل اور نکمے ہیں۔
آج جس سول سروس کی اصلاح کا بازار 1958ء سے گرم ہے، اس کی دیمک زدہ عمارت میں سوائے ان گھروں کے کچھ باقی نہیں رہ گیا۔ سول سروس میں داخل ہونے والا ایک نوجوان جو پاکستان کے سب سے مشکل امتحان کو پاس کر کے نوکری میں آتا ہے تو اس کی تنخواہ 30370روپے ہوتی ہے، اسے شہر میں کرائے پر گھر لینے کے لیے 4433روپے ملتے ہیں۔ اسے ماہانہ سفر کے لیے پانچ ہزار روپے اور پورے گھر کی صحت کے 1848روپے ماہانہ دیئے جاتے ہیں۔ ایک سترہ گریڈ کا اسسٹنٹ کمشنر، اسسٹنٹ کلکٹر کسٹمز، پولیس کا اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ، انکم ٹیکس کا اسسٹنٹ کمشنر، وزارت خارجہ کا فرسٹ سیکرٹری ماہانہ اوسطاً 47232روپے لے کر اس گھر میں آتا ہے جہاں اس کے آس پاس رہنے والے اور اس کے برابر تعلیم والے اس سے کئی سو گنا کما رہے ہوتے ہیں۔ ایک اچھی یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنے والا، بغیر کسی مقابلے کے امتحان پاس کیے کسی کارپوریٹ سیکٹر میں تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے سے نوکری کا آغاز کرتا ہے۔ اسے ایسی گاڑی میسر آتی ہے جسے وہ بچوں کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھایا جاتا ہے اور اس کی صحت کے لیے ہیلتھ انشورنس ہوتی ہے جس کے تحت دانتوں کی خوبصورتی کے علاوہ بڑے سے بڑے آپریشن کا خرچہ اٹھایا جاتا ہے(جاری ہے)


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *