تقریروں نہیں توبہ کا وقت

سمجھ نہیں آرہی بات شروع کہاں سے کروں کہ دونوںموضوعات ہی نجاست و غلاظت زدہ ہیں لیکن کہیں نہ کہیں سے تو شروع کرنا ہی پڑے گا توکیوں نہ اس پروپیگنڈہ سے شروع کریں کہ’’ایک‘‘ پارٹی کو دیوار سے لگایاجارہاہے۔ انتخابات کو متنازع بنایا جارہا ہے۔ سابق نااہل وزیراعظم نے تو کل یہ کہتے ہوئے انتہا کردی کہ ’’71ء والا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ دھاندلی نہ روکی تو نتائج ہولناک ہوںگے۔‘‘ اس سے پہلے یہ صاحب تسلسل کے ساتھ ’’خلائی مخلوق‘‘ کی مالا جپتے رہے تو ایک دو سادہ سے سوال ہیں کہ اگر لائل پور (فیصل آباد)کے رانا افضل سے لے کر دھمال چودھری تک، لاہور کے خواجہ احمد حسان سے ڈی جی خان کے جمال لغاری تک اور سندھ کے خورشید شاہ سےلے کر نثار کھوڑو تک پاکستان کا عام شہری اور ووٹر شعور کی بیداری پر انگڑائی لے کر اٹھنے کے بعد جگہ جگہ، شہر شہر ان سیاسی ڈائناسارز کوہاتھوںہاتھ لے رہا ہے، جوتوں لوٹوں تھپڑوں سے ان جھوٹے معززین کا ’’فقید المثال استقبال‘‘ کررہاہے تو اس میں ’’دھاندلی‘‘ ، ’’دیوارسے لگانا‘‘ یا ’’الیکشنز کو متنازع‘‘بناناکہاں سے آگیا؟ اس کے علاوہ یہ علامتی سی بات کہ ڈاکٹریاسمین راشد کا سامنا کرنے سےبھی بری طرح خوفزدہ حلقہ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، تو یہ جو اک خاص قسم کی فضا بن رہی ہے، شعور کی ’’وبا‘‘ پھیل رہی

ہے تو یہ سب کچھ ان لوگوں کا اپنا کیا دھرا ہے جنہوں نے ’’شہریوں‘‘ کو ’’رعایا‘‘ سمجھ لیا تھااور خود اپنے لئے ’’حکمران خاندان‘‘ جیسی شرمناک اصطلاح استعمال کرنے لگے تھے۔ ہوصرف اتنارہا ہے کہ خلق خدا ان کے خوف، جن جپھے اورشکنجے سے نکل کر ’’رعایا‘‘ کی بجائے’’شہریوں‘‘ کی طرح ایکٹ اور بی ہیو کر رہی ہے اور اگریہ سلسلہ زور پکڑ گیاتو ووٹ کم اورجوتے زیادہ پڑیں گے۔ اول ان کا تکبر رعونت، دوم ان کی بدترین کارکردگی کہ ملک کو گھسیٹ کر ’’گرے لسٹ‘‘ تک لے گئے، سوم ان کی بے دریغ لوٹ مار کے ثبوت جو پاناما سے پارک لین تک پھیلتے پھیلتے معتبر برطانوی اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ میں ان کی 21جائیدادوں تک جا پہنچے ہیں اور یہ اسی طرح چپ ہیں جیسے ایون فیلڈ پراپرٹی کی منی ٹریل مانگنے پر جواب میں گونگے تھے۔ کیا عوام نہیں جانتے کہ اگر یہ سچے ہیں تو ’’ڈیلی میل‘‘ پر ہتک عزت کا دعویٰ کیوں نہیں کرتے؟ عوام جانتے ہیں بلکہ اب جان چکے ہیں کہ جھوٹ کے پائوں کیا ٹانگیں بھی نہیں ہیں اور اگر یہ اخبار پر مقدمہ کریں گے تو یہ بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے جیسی حرکت ہوگی اور ممکن ہے جواب آں غزل کے طور پر برطانوی اخبار مزید 121کالی جائیدادیں نکال لائے اور انہیں لینے کے دینے پڑ جائیں۔ کون سی عزت اور ہتک؟’’یہ ہیں وہ حقائق اورثبوت جناب اسپیکر!‘‘ جن کی وجہ سے انہیں دھاندلی دکھائی دے رہی ہے اور یہ خود کو دیوارکے ساتھ لگتامحسوس کررہےہیں۔ متنازع یہ خود ہوچکے ہیں لیکن صورتحال کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے انہیں کچھ وقت درکار ہوگا۔ اقتدار کا مسلسل اور تیز بخار اترتے اترتے ہی اترے گا۔ان کا ایک اور جرم ان کا وہ خفیہ میڈیا سیل بھی ہے جو اپنی جہالت میں غرق غلاظت اور غیرمعمولی معاوضوں کے باعث سیاست میں مذہب کے منفی استعمال تک جا پہنچا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر حقائق کو مسخ کرنا، سیاق و سباق کے بغیر پیش کرنا او ر اینگلنگ ہی ان کی ’’روٹی روزی‘‘ ہے۔ یہ بے شناختے ، بے چہرہ مجھ پر بھی طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں جسے میں تو ہنس کر ٹال دیتا ہوں کہ قافلے غوغائے سگاں کے باوجود رواں دواں رہتے ہیں لیکن عمران خان اور ان کی اہلیہ کی بابا فریدؒ کے مزار پر حاضری کو جس طرح انہوں نے سوشل میڈیا پر اسکینڈلائز کرنے کی ناکام کوشش کی ہے، وہ نفرت و حقارت کے قابل بھی نہیں۔ان کے مفرور آقائوں کو چاہئے انہیں لگام دیں ورنہ کسی کا تو کیا بگڑنا، خود ان کا اپناانجام بد سے بدترہوتا چلا جائے گا کہ میں روز ِ اول سے یہ بات برائے بات ہرگز نہیں کر رہا بلکہ میرا وجدان کہتا ہے کہ یہ خاندان قانون نہیں، قانون ِ قدرت کی پکڑمیں ہے ورنہ کہاں سسٹم کی رگوں میں راسخ ہوچکا یہ فنکار گھرانہ اور یہ حالات؟ کہ تنکوںکی طرح طوفان درطوفان کی زد میں لیکن نہ بہتان لگانے سے باز نہ توبہ کے لئے تیار۔ بیماری کو بھی سازش کیوں نہیں کہتے؟کاش ان کا کوئی طفیلیا ہی انہیں یہ سمجھا دے کہ یہ وقت وکیلوں، دلیلوں، اپیلوں، جلسوں کا نہیں….. سجدوں کا ہے۔تقریروں کا نہیں توبہ کا وقت ہے۔الحفیظ، السلام، الجبار، المتکبر، الغفار، الخافض، الحکیم، الشکور، العلی….باقی کل سہی۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *