پلیجو کی لالٹین نہیں بجھتی

لوگ اسے سندھ کا منی مائو کہتے۔ دانشور سیاستدان۔ انتہائی پڑھا لکھا۔ زیرک۔ یگانہ روزگار۔ ہر فن مولا ادیب، شاعر، افسانہ نگار،تاریخ، فن موسیقی و حرب کا مشاق جانکار، لڑاکا یا فائٹر، قانون دان، بہادر اور بے خوف ، شاہ بھٹائی کا جدید شارح، عاشق و حسن پرست۔ میں جب بڑا ہو رہا تھا تو میں نے اسی کے پیروکاروں سے اور خود اسی کی زبانی اس کیلئےتحریر شدہ الفاظ پڑھے ’’مشعل راہ روشن کرنے والا ڈاہو (دانشمند)۔ پون صدی کی دانش رسول بخش پلیجو اس جہان رنگ و بو سے کوچ کر گئے۔ وہ توانا آواز ’’جہاں کو دو مبارکیں کہ ہم فتح مند ہیں‘‘ خاموش ہوگئی۔
وہ سندھ کے حقوق کی تمام تحاریک کا ایک نہ دوسرے دور میں اگلے مورچوں کا سپاہی بھی رہا تو جری جرنیل بھی۔ اور اسے جرنیل بننے کا شوق بھی تھا۔ جرنیل سے زیادہ ایک چرواہا۔ وہ بھی لوگوں کا۔ عوام کا۔ اس لیے نہیں کہ لوگ کوئی بھیڑ بکری تھے۔ لیکن جس طرح کہا جاتا ہے کہ نبیوں نے بھی چرواہوں کا پیشہ اختیار کیا ہے۔ لیکن چرواہا بڑی شے ہوتا ہے کہ اسکی ہر وقت نگاہیں زمین کی طرف ہوتی ہیں جہاں وہ ہر آتے جاتے قدموں کا نقشہ اپنے ذہن میں بناتا ہے اور اسکی آنکھ کے سامنے گزرنے والے ہرجانورکے کھر اور ہر انسانی پیر پر اس کی نظر ہوتی ہے۔ لب پر کہانیاں قصے داستانیں اور کلام۔ عیسائیت میں تو ایسے پیشے والے یا

رہنما کو بھی شیپرڈ کہا جاتا ہے۔ پلیجو کی شخصیت کا پہلو یہ بھی تھا۔ اسی لیے اس نے میرے صحافی دوست کو بتایا تھا کہ اس نے اپنی ایک کتاب کا نام بھی انہی لوگوں پر رکھا تھا ’’دھراڑن جا دھک‘‘ یعنی کہ ’’چرواہوں کی چوٹیں‘‘۔ لیکن اس نے بچپن میں چوریاں بھی کیں۔ کئی برس ہوئے کہ اس نے اپنے بچپن سےمتعلق ایسی بات ایک سندھی جریدے کے پینل کو دوران انٹرویو بتائی تھی۔ ایک گوناگوں شخصیت اور اسکی ہمہ جہت زندگی۔ محض انتہائی متنازع نہیں بلکہ تنازعے کھڑے کرنے والا رہنما اور لکھاری۔ رسول بخش پلیجو کی زندگی طوفانوں ، خطرات اور تضادات سے پُر تھی۔ اختلافات، احتجاج، یہاں تک کے اپنے بیٹے سے بھی۔ کئی لوگ اس سے خوف کھاتے تھے۔ اسے سخت ناپسند کرتے اور ان سے بھی زیادہ نہ فقط ان سے محبت کرتے بلکہ ان سے عقیدت رکھتے۔ وہ قاتل کشش رکھنے والا محبوب شخص بھی تھا۔ وہ سندھ کی پوری لاڑ (زیریں سندھ کا علاقہ) تھا۔ جیسے اس کی اہلیہ اور سندھ کی ام کلثوم زرینہ بلوچ جسے سارا سندھ جی جی یعنی ماں کہتا نے گایا تھا علی بابا کا لوک گیت ’’اسیں ماڑہوں لاڑ جا دریا جے پاچھاڑ جا‘‘ (کہ ہم لاڑ کے لوگ ہیں دریا کے نچلے سرے کے رہنے والے)۔ ذہنی طبیعت اور درویشی میں وہ ایسا تھا۔ اسے شادیاں کرنے کا شوق تھا۔ وکیل بھی تھا مقدمہ باز بھی تھا۔ ایک دفعہ سندھی اخبار برسات کو مقدمے بازی کی دھمکی پر شیخ ایاز جو کہ اس اخبار کا مدیر تھا اور خود بھی وکیل تھا مگر اخبار کی ایڈیٹر شپ چھوڑ گیا۔ ’’میں اسے جانتا ہوں۔ پلیجو میرا دوست ہے وہ چھوڑنے والا نہیں۔‘‘
اس نے عورتوں کا استحصال بھی کیا اور عورتوں کے حقوق کا سب سے بڑا چیمپئن بھی مانا گیا۔ سندھ میں عورتوں کو یا تو بینظیر بھٹو سڑکوں پر لائی یا پھر رسول بخش پلیجو۔سندھیا ئی تحریک اسکی مثال ہے، اسکے بچوں کو اس سے شکایت رہی کہ نہ وہ انکا خیال رکھ سکا او رنہ ہی ان سے انصاف کر پایا۔ یہ بات صحیح ہے کہ وہ خون کے رشتوں سے زیادہ نظریاتی رشتوں پر یقین رکھتا تھا لیکن اسکے بچے کوئی اسکے نظریاتی دشمن بھی تو نہیں تھے۔ نہ ہی بیویاں۔ لیکن وہ اپنی زندگی کی آخری گھڑی تک اپنے آدرشوں اور نظریات سے (جیسے بھی تھے) وفادار رہا۔
اس کی زندگی سراپا شاعری تھی۔ زندگی کے آخری دنوں میں بھی اپنی بیٹیوں بھانجیوں اور پارٹی کی ساتھیوں کے ساتھ انقلابی گیت گاتا۔ ان کی لے ترتیب دلواتا۔ وہ جب شاہ لطیف کی شاعری پڑھتا تو ایسا لگتا کہ تین سو برسوں سے بھٹ شاہ پراسی طرح کا راگ گانے والے فقیروں کے بغیر تنبورے کی تاریں خود بخود چلنے لگی ہیں۔ جیسے خود شاہ لطیف نے کہا تھا کہ ’’شمال سے ہوا لگے تو کینجھر جھیل بھی جھولا بن جائے۔ ‘‘یہ جھولا وہ نہیں جو سکھیاں ساون میں درختوں میں ڈالا کرتیں بلکہ وہ جھولا جسے سندھی میں ہندورا کہتے ہیں۔ وہ جب فیض کو پڑھتا تو فیض نے بھی اپنی شاعری اس شد و مد سے شاید ہی پڑھی ہوگی۔ اسے اپنے مزاج میں اسٹالن نہیں بھولا تھا کہ اپنی زندگی کے آخری دن وہ اس پر اردو شاعری شاید مخدوم محی الدین کہ ساحر کی نظم بستر علالت پر پڑھ رہا تھا۔ یہ سندھی مائوزے تنگ بننے کے جنوں میں مبتلا شخص کیسے مانتا کہ اسٹالن روسی ضیاالحق تھا۔ پلیجو کی بھی بھٹو کی طرح پسندیدہ شخصیت نپولین تھا۔ نوے کی دہائی میں اسکے کارکن اسے ہٹلری انداز کا سیلوٹ کرتے۔ اسے بندوقوں کے پہروں میں بھی رہنا پڑا ۔ ایک سے ایک جدید خودکار اسلحہ۔ اسکے کارکن کہتے کہ اسے سندھی قوم پرستوں اور ایم کیو ایم سے خطرہ ہے۔ سندھ میں سندھی مہاجر شائونزم میں وہ ایک اور شاہکار تھا، کاش وہ اس آگ میں فائر نہیں فائر مین ہوتا۔ جئے سندھ کے کارکنوں سے نعرے بازی کے مقابلے اس کے بندوق بردار کارکنوں کی کراس فائر میں مٹھی تھرپارکر میں ایک تنور پر کام کرنے والا مزدور موت کا نشانہ بن گیا۔ کہ پلیجو شعلہ بھی تھا شبنم بھی تھا۔ بقول شاعر کہ اس نے اپنے شبنمی خوابوں کو رتجگوں کی آگ کی نذر کیا تھا۔وہ اکثر ریل میں یا پھر جیل میں ہوتا۔ لیکن ضیاالحق کے دور میں کوٹ لکھپت جیل سےایک لمبے عرصےبعد نکلا تو دوستوں چاہے دشمنوں نے اس ذہین سچے لیکن کنگلے کامریڈ اور اسکے خاندان کے معاشی حالات میں دن رات کے فرق آنے پر سوالات ضرور اٹھائے۔ وہ رجعت پسندوں ترقی پسندوں اور قوم پرستوں سے بیک وقت حالت جنگ میں رہا۔ اور اس پر اسکی کئی کتابیں اور کتابچے ہیں۔ قصہ مختصر کہ اگر تم نے کبھی کراچی لاہور ٹرین کا سفر کیا ہوگا تو کوٹری اور جھمپیر کے بعد ایک اسٹیشن اس پتھریلے اور کیکٹس کے بیابان میں جنگ شاہی کا آتا ہے۔
جہاں کی لسی مشہور مشروب ہے۔ پلیجو بھی بچپن میں جنگ شاہی کی لسی کی گاگریں اٹھانا چاہتا تھا لیکن لاغر جسم ہونے کی وجہ سے اٹھا نہیں سکتا تھا۔ گائوں میں چوری چکاری ہوتی تھی۔ یہ اپنی ماں کے ساتھ لالٹین جلاکر ساری رات پہرا دیتا اور ساری رات اپنی ماں کو کتابوں سے با آواز بلند کہانیاں پڑھ کر سناتا۔ مجھے لگا چوری اب بھی جاری ہے محض اسکے گائوں کی نہیں پورے دیس کی۔ اسکے خیالات و خواب و فکر کی لالٹین جلی ہے اور وہ آخر تک اپنی ماں کو کتابوں سے کہانیاں ہی سناتا رہا اور ماں اسکی دھرتی تھی۔ سندھ دھرتی اور مادر وطن۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *