کب تک، آخر کب تک آزمائے ہوؤں سے امید وابستہ کی جائے گی۔ ایک نئی سیاسی جماعت نہیں تو صاحبِ درد اور ہوش مند لوگ کم از کم ایک پریشر گروپ ہی قائم کر دیں
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
یہ جو بہت بے چینی ہے،کنفیوژن کے طفیل ہے۔ مفروضے بے حساب، خلط مبحث بے پناہ۔ قرآن کریم کہتاہے: تمہیں صبر کیسے آئے، تم جانتے جو نہیں۔
حکمرانوں کو ہم کوستے اور روتے ہیں کہ لیڈر شپ کا بحران ہے۔ دانشور نرگسیت کے مارے ہوئے۔ کہیں سے کوئی فصیح آواز سنائی دیتی ہے، جس میں منطق کا بگھار بھی ہو تو لپک اٹھتے ہیں؛حتیٰ کہ طاہر القادری کی طرف ؎
چمن کے رنگ و بو نے اس قدر دھوکے دئیے مجھ کو
کہ میں نے ذوقِ گل بوسی میں کانٹوں پہ زباں رکھ دی
انیسویں صدی کے وسط سے لگ بھگ ایک سو سال تک مسلم برصغیر یہی تھا۔ غالبؔ نے سر سیّد کو سفّاک زمینی حقائق کی طرف مائل کیا۔کہا: دنیا بدل چکی، ریل کی پٹڑیاں بچھ رہی ہیں اور بھاپ سے انجن چل رہے ہیں۔سر سید مخلص تھے؛چنانچہ وہ نتیجہ خیز رہے وگرنہ مسلم برصغیر افغانستان کی طرح ہوتا۔ تاریخ اورشریعت کو البتہ وہ نہ سمجھ سکے۔ یہ ان کا میدان ہی نہ تھا۔ دیوبندآج بھی قدیم زمانوں میں زندہ رہنے پہ مصر ہے۔ باغی اور اقتدار کا خواہاں کہ 1857ء کی بغاوت میں اقتدار کا مزہ علماء نے چکھا تھا اور نشہ اس کا یاد رہا۔ شاعر نے دیکھا تو یہ کہا ؎
چلتاہوں تھوڑی دور ہر ایک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
پھر اقبالؔ اور جناح اٹھے۔ دردمندی اور خلوص ہی نہیں، جذباتی توازن بھی۔ تنِ تنہا اقبالؔ نے ایک فکری انقلاب برپا کیا۔جناح بھی تنہا تھے؛حتیٰ کہ محمد علی جوہر کی گواہی اور اقبالؔ کی پیہم پشت پناہی سے وہ قائد اعظم ہو گئے۔ اقبالؔ مشرق و مغرب سے آشنا۔ جب وہ دنیا سے اٹھے تو ان کی مساعی سے مسلم برصغیر بدل چکا تھا۔ سیاسی انقلاب ان کے نظریے پہ برپا ہوا اور اس نے برپا کیا جو اخلاقی اعتبار سے اپنے عہد کا بہترین آدمی تھا۔ سچا، دیانت دار، وعدے کا پابند، امت سے محبت کرنے والا، سیاسی مدبّر مگر روادار اور شائستہ، مظلوموں کا ہمدرد اور حیرت انگیز حد تک متوکّل۔ ڈسپلن میں سخت مگر رجائیت پسند۔
حالات کتنے ہی ابتر ہوں، ہمیشہ کچھ نہ کچھ کیا جا سکتاہے۔کفر ہی نہیں، مایوسی موت بھی ہے۔ قومیں زوال آشنا ہوتی ہیں اور رفعت پذیر بھی۔ صدیوں تک انگریز اجنبی اقتدار کے جبر سے گزرے۔ صلیبی جنگوں، سپین اور ترکوں کے عروج سے انہوں نے سیکھا۔ہمارے پڑوسی بھارتیوں کی طرح، جو سات سو سال تک مسلمانوں اور پھر انگریزوں کے غلام رہے۔ سات آٹھ سو برس پہلے برطانوی علم کی طرف مائل ہوئے۔ آکسفرڈ میں ڈیکارٹ کے نام سے امام غزالیؒ پڑھائے گئے۔ ہندوستان میں فاتح مغل علمی زوال کوبڑھے۔ ترک ابھی ترقی پذیر تھے۔ سلیمان ذی شان سے ملکہ الزبتھ نے تحریری طور پر سرپرستی کی درخواست کی تھی۔
سہل پسندی اور لذت کوشی نے مسلمانوں کو قدامت پسند بنا دیا۔ چیلنج نے مغربی ذہن کو سائنس اور جدوجہد کی طرف مائل کیا۔ علمی تحریک اٹھی اور اخلاقی بھی۔صرف صنعتی انقلاب نہیں، عوام کی مرضی سے حکمران کا انتخاب۔ مسلمانوں کو ملوکیت نے مارا کہ انسانی صلاحیت آزادی میں فروغ پاتی ہے۔پونے دو سو برس پہلے خانہ جنگی میں امریکیوں نے دریافت کیا کہ وہ خود کو تباہ کر لیں گے؛چنانچہ عوامی اقتدار، رواداری، مہذب اور شائستہ سیاسی جماعتوں کا قیام ان کا ہدف ہوا۔ ایک صدی تک مڈل کلاس کی لیڈر شپ انہیں نصیب ہوئی۔ افراد یا اقوام، امن اور ترقی، فقط فہم اور فلسفے کی نہیں، پیہم جدوجہد کی پیداوار ہوتی ہے۔ جدید زندگی، سائنسی علم کے ساتھ ہے۔ سائنسی ترقی تخلیقی اندازِ فکر چاہتی ہے، اقدار کی موت نہیں، اللہ اور اس کے رسولؐ سے بغاوت نہیں، جس کا ہمارے مرعوب سیکولر اور لبرل طبقات واویلا کرتے رہے۔
حکمران اقتدار اور دولت کے بھوکے، مولوی صاحبان ماضی پرست۔ حماقت کی حد ہے کہ شکوہ سنج ذہین لوگ سیاست اور مذہبی اداروں کو خود سنبھالنے کی بجائے،فقط آسودگی چاہتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ کنفیوشس اور افلاطون ہی نہیں، حیاتِ اجتماعی پہ جب، جہاں کہیں بحث تھی، ہر صاحبِ فکر نے جتلایا: اچھے لوگ گھروں میں بیٹھ رہیں گے تو ادنیٰ ان پر حکومت کریں گے۔ المیہ یہ نہیں کہ غنڈے مسلط ہو جاتے ہیں بلکہ یہ کہ شرفا ادب، موسیقی، مصوری، شاعری اور کاروبار میں پناہ لیتے ہیں۔ زندگی علت و معلول کے رشتے میں بندھی ہے اور قدرت کے قوانین کی پابند۔
قانون توڑنے پر مغرب میں آئے دن کوئی حکمران پکڑا جاتاہے۔ کبھی ہم ان سے بہتر تھے۔ نون لیگ ہو یا تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جماعتِ اسلامی یا اے این پی والے، کس ڈھٹائی سے اپنے لیڈروں کی غلطیوں کا دفاع کرتے ہیں ؎
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک کو دردمند اور رنجیدہ پایا۔کاہے کو؟میں نے ان سے کہا: جس سمت کو چاہے صفتِ سیلِ رواں چل۔رسوا تو ظالم اور منافق ہوں گے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی اسی معاشرے کا حصہ ہیں، ڈاکٹر امجد ثاقب بھی۔ انہی پاکستانیوں کے عطیات سے شوکت خانم، ایدھی اور تعمیرِ ملت فاؤنڈیشن اور ریڈ کارپوریشن قائم ہے۔ یہی توانائی اور یہی وسائل سیاست میں کیوں بروئے کار نہیں آسکتے؟ تحریک انصاف کے بہت سے کارکن مخلص ہیں مگر سفلہ پروری پر وہ اپنے لیڈر کا محاسبہ کیوں نہیں کرتے۔
ایک عجیب شعر یاد آتا رہا ؎
اس کے بندے ہیں سو اس کی طرف دیکھتے ہیں
وہ شہہ چارہ گراں کس کی طرف دیکھتا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کپتان خوشامدیوں کی طرف دیکھتا ہے۔ادھر نواز شریف ذہنی انتشار اور مسلسل مخمصے کا شکار۔زرداری صاحب بظاہر اپوزیشن میں ہیں، درحقیقت اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کر چکے۔ ہمت ان کی ٹوٹ چکی۔بمشکل دونوں ہاتھوں سے چائے کی پیالی اٹھاتے ہیں۔ اس عمر میں خود کو مگر بدل نہیں سکتے۔ وہی فریب دہی، وہی حیلہ سازی۔
گو ہاتھ میں جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر ومینا میرے آگے
شہباز شریف کی کمائی لٹ چکی۔ وہ مریم نواز لے گئیں کہ ان کے باپ کی متاع تھی۔دو کشتیوں کے ہر سوار کے ساتھ بالاخر یہی ہوتاہے۔ اپوزیشن اتحاد نے خاک چاٹی۔ جو کچھ بچ رہا، ایسا لگتاہے کہ مارچ کے آخر اور اپریل کے آغاز میں لٹ جائے گا۔ عمران خاں ناکام ہو چکے۔ اب یہ واضح ہے کہ ان کے اقتدار میں اقتصادی نشو ونما ممکن ہی نہیں۔ اپنی ذات کے اس قدر وہ اسیر ہیں کہ بروئے کار آنا تو کجا، امکانات کا ادراک ہی نہیں کر سکتے۔
چیخ چیخ کر در و بام کہتے ہیں کہ ملک کو نئی قیادت کی ضرورت ہے۔ آرزو سینوں میں بیدار ہو چکی اور متشکل ہونا چاہتی ہے۔کوئی دن جاتا ہے کہ نئی قیادت نمودار ہو گی۔
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
کب تک، آخر کب تک آزمائے ہوؤں سے امید وابستہ کی جائے گی۔ ایک نئی سیاسی جماعت نہیں تو صاحبِ درد اور ہوش مند لوگ کم از کم ایک پریشر گروپ ہی قائم کر دیں
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *