سب سے بڑی کامیابی

برسبیل تذکرہ‘ یہ جو اسلام آبادمیں دھرنا ہوا ہے۔ یہ ایک طرح کی ریہرسل ہے اس متوقع دھرنے کی جو وہاں مبینہ طور پر ہونے جا رہا ہے۔ مرا مطلب یہ نہیں کہ اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ وہ دھرنا کیسا ہو گا۔ بلکہ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ شیخ رشید کی وزارت داخلہ اس سے کیسے عہدہ برآ ہو گی۔ شیخ صاحب باتوں کے بادشاہ ہے‘اپنی تقریروں میں بتا رہے ہیں کہ آنے والے آئیں‘ سو بار آئیں‘ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں۔ مگر کسی نے قانون کو ہاتھ میں لیا تو قانون ان سے سختی سے نپٹے گا۔تو میں یہی کہہ رہا ہوں کہ شیخ رشید کی اس سے کیا مراد ہے۔ سختی سے قانون کا نپٹنا ایسا ہی ہوتا ہے اور اس کے نتائج میں وہی نکلے ہیں جو اس چھوٹے سے دھرنے کے نکلے ہیں۔ پتھرائو‘ آنسو گیس‘ لاٹھی چارج‘ ہوائی فائرنگ‘ مار دھاڑ‘ سارے رستے بند۔ اسلام آباد مکمل طور پر سیل۔ ریڈ زون تک میں آنسو گیس کی بوچھاڑ ۔ کسی نے سوال پوچھا تھا کہ شیخ رشید کو عمران خان نے کیوں وزیر داخلہ بنایا ہے تو بتایا جاتا تھا کہ شیخ صاحب چونکہ گیٹ نمبر 4سے اپنے تعلقات کا پرچار کرتے ہیں اس لئے شاید انہیں طاقت کے استعمال میں آسانی ہو۔ جواب میں کسی نے کہا تھا کہ اس سے کہیں گہرے تعلقات تو چودھری نثار علی کے بھی تھے۔ گیٹ نمبر 4 کے پھاٹک ان معاملات کے لئے نہیں کھلا کرتے اور اگر کھل جائیں تو اثرات اس سے کہیں خراب ہو سکتے ہیں۔
سو یہ بات بھول جائیں کہ دھرنے کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ بات بھی بھول جائیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ساتھ ہو تو نتائج نکلا کرتے ہیں۔ ایسا ہوتا تو 126دن والا شہرہ آفاق دھرنا فیصلہ کن ہوتا۔ ہاں یہ ذرا سوچیں کہ اگر اسلام آباد میں یہی صورت حال چار چھ دن جاری رہے تو اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔ بے نظیر کا ٹرین مارچ یا نواز شریف کی عدم اعتماد کی تحریک یا ایسے ہی دوسرے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ ان کے اثرات کیا پڑتے۔ایسے ہی کسی واقعے پر شاید بے نظیر نے کہا تھا کہ اس سے سارا نظام ہل کر رہ جاتا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو جائے یا دھرنا بکھر جائے مگر اپنا اثر چھوڑ جاتا ہے۔ فیض آباد والے دھرنے کو یاد کیجیے۔ اس کے اثرات ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
میں نہ ڈرانا چاہتا ہوں نہ کوئی اور نیت ہے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ ہر ہر واقعہ ہمارے جسد سیاست پر اپنے اثرات چھوڑ جاتا ہے۔ گزشتہ چار پانچ برس میں جو کچھ ہوا‘ اس نے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ چار پانچ برس اس لئے کہہ رہا ہوں‘ اس دن جب 2016ء کے آغاز سے کوئی چیز سلامت نہ رہی۔ اس سے پہلے دھرنے نے بہت اثرات چھوڑے تھے۔ چینی صدر کا دورہ ملتوی ہونا معمولی بات نہ تھی۔ سی پیک کے خلاف یہ پہلا دور تھا‘ مگر معاملات سنبھل گئے تھے۔ گاڑی دوبارہ پٹڑی پرچڑھ سی گئی تھی اور معاملات اتنی تیزی سے آگے بڑھنے لگے تھے کہ لگتا تھا پاکستان جلد ترقی کی دوڑ میں خاصا آگے نکل جائے گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ذرائع آمدورفت میں انقلاب سا آ گیا اور انرجی کا بنیادی مسئلہ تقریباً طے ہو گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب غیر ملکی سرمایہ پاکستان آنے کے لئے پر تولنے لگا تھا۔ عین ایسے وقت میں ملک کے اندر یہ نیا طوفان برپا ہو گیا۔ دیکھنے کو تو یہ حکمران کے خلاف عدالتی کارروائی تھی جس کے نتیجے میں حکومت بھی بدل ہوئی اور سیاست بھی۔تاہم اس کے نتائج بہت دوررس نکلے۔ ملک سے سی پیک کو رول بیک تو نہ کیا جا سکا‘ تاہم اسے ایک طویل عرصے کے لئے موخر کر دیا گیا۔ نئی
حکومت کے ایک مشیر یا وزیر نے آتے ہی اعلان کیا کہ ہمیں یہ منصوبہ کم از کم ایک سال کے لئے موخر کر دینا چاہیے مگر کیوں؟ کسی نے کبھی غور کیا کہ نئی حکومت کے آتے ہی سی پیک کی مخالف قوتیں ہمارے ہاں کیسے متحرک ہو گئی تھیں۔ پہلے تو پراپیگنڈہ کیا گیا کہ یہ سی پیک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی ہے۔ پھر کھلم کھلا نام نہاد ماہرین نے رائے زنی شروع کی کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا ہمارے لئے کوئی چارہ نہیں ہے ان دنوں کسی نے عمدہ بات کی تھی کہ پاکستان کو کوئی 5ارب ڈالر کی ضرورت تھی جو دو جگہ سے مل سکتے تھے۔ایک سی پیک سے دوسرے آئی ایم ایف سے۔ ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ ہم آئی ایم ایف کی گود میں چلے گئے۔ حکومت پہلے تو متذبزب رہی کیونکہ وہ آئی ایم ایف کے خلاف اقتدار میں آنے سے پہلے بہت کچھ کہہ چکی تھی۔ بالآخر اپنے وزیر خزانہ کی قربانی دے کر ہم آئی ایم ایف کی جھولی میں ایک پکے ہوئے پھل کی طرح جاگری۔حالت ایسی ہو گئی تھی کہ ہم نے ملکوں ملکوں قرضے کے لئے کاسۂ گدائی پھیلا کر اپنی عزت خراب کی پھر آئی ایم ایف ایسے ناگزیر ہوا کہ ہم نے ان کی وہ شرائط بھی مانیں جو شاید کبھی قابل قبول نہ ہوئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس ملک میں دو واضح دھڑے بن گئے۔ سابقہ حکومت جس نے آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ دیا تھا اور سی پیک کو کامیابی سے پروان چڑھایا تھا۔ دوسری طرف موجودہ حکومت جو دانستہ یا نادانستہ آئی ایم ایف کی ہو کر رہ گئی اور اس نے سی پیک کے تحت تمام ترقیاتی منصوبوں کو خیر باد کہہ دیا۔ یہ جو ریل لائن کا ایم ایل ون کا منصوبہ ہے اور جس پر ہمارے شیخ رشید فخر کرتے تھے۔ ان سے پہلے طے ہو چکا تھا اور اسے کمال تیز رفتاری سے مکمل ہونا تھا۔ ہم نے اسے التوا میں ڈال دیا اور اس کی تکمیل کے لئے اتنی لمبی مدت مقرر کی کہ شاید اس وقت تک اس کے کچھ معنی نہ رہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری افغان پالیسی تھی جو ہمیں ٹرمپ انتظامیہ کے قریب لے گئی‘ شاید یہ بھی درست ہو‘ مگر یہ تو ہونا ہی تھا‘ اصل میں یہ ہماری چین کے بارے میں پالیسی تھی جس نے ہمیں دوبارہ امریکہ کے قریب کیا۔ ہمیں بہت سے جھانسے دیے گئے۔ معلوم ہوا گوادر کے قریب سعودی سرمایے سے 10بلین ڈالر کی ایک آئل ریفائرنری بن رہی ہے۔ کہاں گئی وہ ریفائرنری بلکہ ہمیں نہایت بے عزت ہو کر قرضہ بھی اچانک واپس کرنا پڑا جو سعودی عرب نے ہیں دیا تھا۔ ایسے وقت میں چین پھر ہمارے کام آیا۔ اصل میں اس خطے میں آئی ایم ایف یا امریکی بلاک اور سی پیک یا چینی بلاک کے درمیان ایک جنگ جاری ہے جو ہمارے قابو سے باہر ہے۔ ہم نے چینی دائرہ اثر سے بے ڈھنگے انداز میں باہر قدم رکھ کر دیکھ لیا ہے کہ یہاں ہمارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔ہم دونوں میں توازن قائم نہ کر سکے نہ اب کر پا رہے ہیں جب کہ ہم خاصے حد تک اب باخبر ہو چکے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ پورے خطے کی پالیسی بدل چکی ہے۔ خود امریکہ سے ٹرمپ کی رخصتی کے بعد ہمارے لئے نئے امکانات ہیں۔ ایسا نہیں کہ امریکہ کی پالیسی یکسر بدل جائے گی تاہم امریکہ اپنے مفاد میں یہ نہیں چاہے گا کہ وہ چین کے ساتھ الجھا رہے جو بائیڈن اور چین کے صدر کے درمیان جو رابطے ہوئے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ امریکہ دوبارہ زمینی حقائق کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لداخ سے اگر بھارت اور چین کی افواج کے درمیان ایک طرح سے مفاہمت ہوتی ہے تو ہمیں سمجھنا چاہیے اس کا مطلب کیاہے۔ چین کی افواج یہاں بھارت کے خلاف کم کھڑی تھیں۔امریکہ کے خلاف زیادہ۔ہمیں چین‘ افغانستان اور مشرق وسطیٰ کے حالات پر گہری نظر رکھنا ہو گی۔ بدقسمتی سے ہمارے اندر اتنی صلاحیت نہیں ہے۔ ہماری معیشت ‘ ہماری سیاست اس وقت کافی حد تک ہماری خارجہ پالیسی کی مرہون منت ہیں۔
آپ چین کی مدد سے دو چار کام تیزی سے کر سکتے تھے اس وقت ریلوے لائن کے علاوہ بھاشا ڈیم اور صنعتی زون بنانے کے لئے آپ کو صرف چین سے مدد مل سکتی ہے۔ زرعی شعبے میں بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ سرمایہ دار بہت کچھ دیکھتے ہیں۔ یہ غلط ہے کہ آپ کے ساتھ آئی ایم ایف نہ ہو گا تو کوئی سامنے نہیں آئے گا۔ چین کی تیز رفتار پیش رفت سرمایہ دار دنیا کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ پاکستان میں کسی اور کے لئے جگہ خالی نہ چھوڑیں۔ شاید ہم مقابلے کی یہ فضا قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس لئے مغربی بلاک کے محتاج بن کر رہ گئے ہیں۔ اس وقت ہم پر شرائط کا ایسا سخت شکنجہ کسا جا رہا ہے کہ ہم بے بس ہو گئے ہیں۔یہ شرائط مانتے جا رہے ہیں۔ ہم نہ زرداری حکومت کی طرح کر پا رہے ہیں کہ اس معاہدے کو نامکمل چھوڑ کر نکل جائیں نہ نواز شریف حکومت کی طرح اسے مکمل کر کے خیر باد کہنے کی پوزیشن میں ہیں۔ آئی ایم ایف ایک ایسی مکھی ہے جو اگلے بنے ہے نہ نگلے۔بس حلق میں پھنس کر رہ گئی ہے۔
ان حالات میں ہم جو داخلی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔ سینٹ کے انتخابات کو بہت کچھ سمجھ رہے ہیں یا اس کے بعد کی صورت حال سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں کہ یہ سب تو ہمارے بس میں ہے تو جان لیں یہ سب ہماری بھول ہے۔ ہم تاریخ کے سفر میں کم از کم پانچ سال پیچھے رہ گئے ہیں۔ وہ یوں کہ ہمیں پرانی منصوبہ بندی کے تحت 2020ء میں 7فیصد شرح نمو حاصل کرنا تھی جو نئے تخمینوں میں اب 2023ء بتائی گئی تھی۔ ایسا بھی ہوتا تو یہ فرق تین سال کا نہ ہوتا بلکہ اس کا امپیکٹ اس سے کہیں زیادہ ہوتا۔ اب تو اس کی بھی توقع نہیں ہے کہ ہم یہ شرح نمو مستقل قریب میں حاصل کر سکیں۔ ہم شاید آئندہ پانچ سات برسوںمیں دنیا کے بیس ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہونے کے لئے پرتول رہے تھے۔ اب مگر یہ دوبارہ خواب بن گیا۔ قدرت نے ہمیں جو موقع دیا تھا‘ ہم ایک بار پھر اس سے فائدہ نہ اٹھا پائے۔ اس وقت بھی جن باتوں میں الجھے ہوئے ہیں‘ ان کے بارے میں نہیں جانتے کہ سب ہمیں کس طرف دھکیل کر لے جا رہا ہے۔ ہم دلدلوں میں دھنستے جا رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ہم سے زیادہ ذہین اور معاملہ فہم اور کوئی نہیں ہے۔ اس سے بڑی بیوقوفی کی نشانی اور کیا ہو گی کہ ہم اپنے نفع و نقصان کو بھی نہ پہچان سکیں۔ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ہم ڈھلان پر پھیلے چلے جا رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گویا ہم نے ہمالہ سر کر لیا ہے۔ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہو گی کہ ہم اپنی صورتحال کا درست ادراک کر لیں اگر بے وقوف بنے رہے تو آنے والی نسلوں کے لئے تضحیک کا سامان ہی ہوں گے اور کچھ نہیں۔ معاملے کو سمجھیے کہ یہی ہماری سب سے بڑی جیت ہو گی۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *