ہر طرف اضطراب کیوں؟

پی ڈی ایم کی تحریک کا پہلا مرحلہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ جلسے اور جلوسوں میں جس قدر عوامی شمولیت کی توقع تھی وہ پوری نہیں ہوئی مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ملک میں سب ٹھیک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی ناکامی کے باوجود معاشرے میں ہرطرف حکومت کے خلاف اضطراب موجود ہے۔ حال ہی میں صوبائی حکومت کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پچھلے ماہ کے صرف 21دنوں میں 653احتجاجی جلسے اور جلوس منعقد ہوئے ہیں۔ کبھی سرکاری ملازمین، کبھی نرسیں، کبھی ڈاکٹر، کبھی بجلی کے صارفین اور کبھی مہنگائی سے تنگ آئے لوگ باہر نکل کر احتجاج کر رہے ہیں۔

کوئی سروے کیا جائے یا عوامی جائزہ لیا جائے تو تاجروں سے لے کر مزدوروں تک ہر کوئی اپنی معاشی حالت پر مضطرب ہے۔ ہر طرف اس اضطراب کی وجہ کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ ہر کوئی اپنے حالات سے غیرمطمئن ہے اور شاید اس لئے غیرمطمئن ہے کہ اس کے خیال میں اسے جو ملنا چاہئے تھا وہ مل نہیں رہا یا جو خواب اسے دکھائے گئے تھے یا اس نے خود ہی دیکھ لئے تھے، وہ پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ جب معاشرے میں اس طرح کا عمومی اضطراب ہو تو عوامی احتجاج کا ماحول پیدا کرنے کے لئے بس ایک دیا سلائی دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت خوش قسمت ہے کہ اہلِ سیاست کو ابھی وہ تیل اور دیا سلائی نہیں مل سکی جو اس اضطراب کو انقلاب اورعوامی احتجاج میں تبدیل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اضطراب پیدا کیوں ہوتا ہے؟ جب آپ کو اپنی امید اور توقع سے کم ملے تو اضطراب شروع ہو جاتا ہے، جب آپ کو لگے کہ آپ کی محنت اور کوشش کے باوجود آپ کو وہ نہیں مل رہا جس کا وعدہ تھا، تو پھر اضطراب جنم لیتا ہے۔ اس وقت ہر طرف یہی صورتحال نظر آ رہی ہے۔ دراصل وعدے اس قدر بلند بانگ اور امیدیں بہت زیادہ تھیں لیکن عملدرآمد بہت ہی کم ہوا ہے۔ وعدوں اور عملدرآمد میں خلا اور تفریق ہی اضطراب کی اصل وجہ ہے۔

معاشرے میں جس ٹھہرائو، سکون یا اطمینان کی توقع تھی وہ دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ کسی بھی حکومت کا بنیادی فرض یہ ہے کہ وہ عوام کو اطمینان اور سکون کی دولت سے مالامال کرے اور ان کی امیدوں پر حتیٰ الوسع پورا اترنے کی کوشش کرے۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہو رہا اسی لئے اضطراب ہے۔

اس معاملے کا مثبت پہلو دیکھا جائے تو وہ یہ ہے کہ حکومت کی آدھی ٹرم مکمل ہونے کے باوجود لوگوں کی امیدیں ابھی مکمل طور پر ٹوٹی نہیں ہیں۔ وہ مضطرب ہیں، ناراض ہیں لیکن مکمل طور پر روٹھے نہیں ہیں کیونکہ انہیں اب بھی امید ہے کہ حکومت ان کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کرے گی۔ یہ جلسے جلوس، یہ احتجاج، حکومت کو جھنجھوڑنے اور توجہ دلانے کے لئے ہیں اگر حکومت نے ان جلسے جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں کا اثر قبول نہ کیا، عوامی اضطراب کا خیال نہ کیا تو پھر اگلا مرحلہ ناراضی اور مخالفت کا ہوتا ہے۔ ابھی عوامی موڈ ایسا نہیں ہے کہ حکومت کو اٹھا کر باہر پھینکنے کی بات کی جائے، ابھی مطالبات منوانے کا موسم ہے، ابھی اسی حکومت سے توقعات اور امیدیں ہیں البتہ جب امیدیں مکمل طور پر ٹوٹ جائیں گی پھر غصہ، ناراضی اور ناامیدی جنم لے گی۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو اضطراب تبدیلی کو جنم دیتا ہے۔ اگر اضطراب کا مداوا نہ کیا جائے، اضطراب کو سکون نہ ملے اور یہ اضطراب بڑھتا جائے تو پھر یہ تبدیلی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ اضطراب سیاسی وارننگ بھی ہوتا ہے اگر حکمران اضطراب کا توڑ نہ کریں، اضطراب بڑھتا رہے تو آخر کار یہی اضطراب تبدیلی لے آتا ہے۔ اضطراب دراصل سیاسی شعور کے اظہار کا ذریعہ ہے اور جب اس اظہار کو مثبت رسپانس نہ ملے تو پھر اس کا رُخ تبدیلی کی طرف مڑ جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کو ہر طرف پھیلے اضطراب کو سکون میں بدلنے کے لئے دور رس اقدامات کرنا ہوں گے وگرنہ اگلے الیکشن میں یہی اضطراب غصہ بن کر اس حکومت کے خلاف کام کرے گا۔

دنیا بھر کی تحریکوں کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ تحریک پہلے ہی دن آگ کے الائو کی طرح جلتی اور بھڑکتی نہیں بلکہ پہلے چھوٹی چھوٹی چنگاریاں سلگتی ہیں، ان میں ہلکی ہلکی آگ لگتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہی چنگاریاں بڑے بڑے انگارے بن کر الائو کی آگ کو تیز کر دیتی ہیں۔ ابھی تک کی صورتحال میں جلسے اور جلوس، احتجاج اور مظاہرے چھوٹی چھوٹی چنگاریاں ہیں، حکومت کو چاہئے کہ ان چنگاریوں پر ابھی سے پانی ڈالے تاکہ یہ الائو کی شکل اختیار کر کے حکومت کے لئے خطرہ نہ بنیں۔

وزیراعظم عمران خان نے 22سال کوچہ کوچہ، قریہ قریہ جلسے اور جلوس کی سیاست کی ہے، اس لئے وہ عوامی موڈ اور مزاج سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کے جاننے والے بتاتے ہیں کہ عمران خان ہجوم کو دیکھ کر فوراً اس کے موڈ اور تعداد کا اندازہ لگانے کے ماہر ہیں۔ امید ہے کہ وزیراعظم تک بھی 21دنوں کے اندر صرف ایک صوبے پنجاب میں 653احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کی خبر ضرور پہنچی ہو گی۔ یہ بھی امید ہے کہ وزیراعظم نے ان احتجاجی جلسوں کے اندر عوامی موڈ کا اندازہ بھی لگایا ہو گا اور پھر عوامی اضطراب کو ختم کرنے یا اس کا مداوا کرنے کا بھی کوئی نہ کوئی فارمولہ بنایا ہو گا۔ توقع کرنی چاہئے کہ اس فارمولے پر جلد از جلد عملدرآمد ہو گا تاکہ معاشرے کا اضطراب ختم ہو اور سکون کا دور شروع ہو۔

دوسری طرف پی ڈی ایم، تحریک کے دوسرے مرحلے کو شروع کرنے والی ہے۔ اسے بھی ٹھنڈے دل سے ہر طرف موجود عوامی مسائل کا ادراک کرنا چاہئے اور انہی مسائل کو اپنی تحریک کا حصہ بنانا چاہئے۔ کوئی بھی تحریک صرف سیاسی کارکنوں کی شرکت سے کامیاب نہیں ہو سکتی۔ صاف بات ہے کہ اگر عام لوگ، کسان، مزدور یا معاشرے کے دوسرے طبقے کسی مہم یا تحریک میں شریک نہ ہوں تو اس کی کامیابی کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ پی ڈی ایم کی تحریک کے پہلے مرحلے میں یہ کمزوری خاص طور پر دیکھنے میں آئی کہ اس میں صرف سیاسی کارکن تھے، عوام، کاشتکار، مزدور، رکشہ ڈرائیور یا طالب علم بطور کلاس کہیں نظر نہیں آئے۔ پی ڈی ایم نے اگر کامیاب ہونا ہے تو اسے اضطراب میں مبتلا طبقات سے رابطہ کرنا چاہئے اور پھر انکے ساتھ مل کر اپنے احتجاج کو مربوط کرنا چاہئے۔ جس دن پی ڈی ایم اس میں کامیاب ہو گئی اس دن حکومت کا بولو رام ہو جائے گا جبکہ دوسری طرف حکومت کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ سیاسی جماعتوں اور مضطرب طبقات کا اتحاد نہ ہو پائے اس کے لئے حکومت کو اضطرابی اور احتجاجی طبقات کے مسائل حل کرنے چاہئیں، بالکل ویسے ہی جیسے سرکاری ملازمین کی تنخواہ کا مسئلہ حل کیا گیا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

وسیم اکرم نے پی ایس ایل ببل میں جانے سے پہلے جِم سے تصویر شیئر کی جس پر ان کی اہلیہ شنیرا اکرم نے کمنٹ لکھا کہ زبردست آپ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ کو بھی پی ایس ایل میں کھیلنا چاہیے۔

پاکستان کی معروف اداکارہ اور ماڈل آمنہ الیاس نے کہا ہے کہ آخر میں ہم سب سے خوبصورت چہرے اور جسم کو یاد نہیں کرتے بلکہ خوبصورت دل اور روح کو یاد کرتے ہیں۔

وسیم اکرم نے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر جِم سے تصویر شیئر کرتے ہوئے مداحوں کو بتایا کہ وہ پی ایس ایل ببل میں جانے سے پہلے آخری بار جِم گئے ہیں۔تین دن کے قرنطینہ کے دوران لاتعداد کورونا کے ٹیسٹ ہوں گے۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ عبدالقادر پی ٹی آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے مشترکہ امیدوار ہیں اس لیے پی ٹی آئی نے انہیں ٹکٹ دیا ہے

حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ مجرموں کو گرفتار کرلیا گیا ہے ، قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا۔
حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ مجرموں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا

بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ ﷲ تعالیٰ سے تمام ہم وطنوں کی خیریت کے لیے دعا کرتے ہیں۔ﷲ تعالیٰ تمام پاکستانیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے

علی ظفر نے سوشل میڈیااکاؤنٹس پرخوبصورت گراؤنڈ میں دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہوئے وڈیو شیئرکی جوان کے مداحوں کو بہت پسند آرہی ہے۔

ڈوین جانسن نے اپنی پوسٹ کے ساتھ لکھاکہ ہرآدمی بیٹا چاہتا ہے لیکن ہر آدمی کو بیٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔میں امید کرتا ہوں کہ میری بیٹی کبھی بھی میرے بڑے ڈائناسور جیسے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے نہیں تھکتی۔

بالی وڈ اداکارہ سنی لیونی کی ویب سیر یز ’انامیکا‘ کی شوٹنگ کے دوران جھگڑا ہوگیا۔ جس کے بعد اداکارہ کو وینیٹی وین میں چھپانا پڑا۔

موٹروے ایم ٹو لاہور سے خانقاں ڈوگراں اور ایم تھری لاہور سے سمندری تک بند کی گئی ہے۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان( ڈریپ) نے چینی ویکسین کین سائنو کے ہنگامی استعمال کی منظوری دے دی ہے ۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور صدر سے رابطہ کیا ہے ۔

محکمہ موسمیات نے دعویٰ کیا ہے کراچی میں اب سردی نہیں آئے گی ۔

اے این پی کا کہنا ہے کہ خواتین کی نشست پر ڈاکٹر تسلیم بیگم اور اقلیتی نشست پر آصف بھٹی کی نامزدگی کی گئی ہے۔

وفاقی وزیر ایوی ایشن غلام سرور خان نےپاکستان میں اپوزیشن اتحاد ( پی ڈی ایم ) کی تحریک نریندر مودی نے لانچ کی ہے ۔

یورپی یونین نے چین کی جانب سے بی بی سی کی نشریات پر پابندی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے اسے بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *