یارلنگ سانگپو دنیا کا بلند ترین دریا ہے‘ یہ 16ہزار4 سو فٹ کی بلندی پر بہتا ہے‘ گلیشیئرشی گیٹس (Shigatse) سے نکلتا ہے‘ پورے تبت کو عبور کرتا ہے اور پھر بھوٹان اور بھارت میں داخل ہو جاتا ہے‘ یہ دریا بھارت کی ریاست ارون چل میں سیانگ ہو جاتا ہے‘ آسام میں براہما پترا بن جاتا ہے‘ بنگلہ دیش میں اس کا نام میکھنا ہو جاتا ہے اور یہ بھارت کے میدانوں میں پہنچ کر جمنا بن جاتا ہے‘ چین کے اندر اس کی لمبائی 2840 کلو میٹر ہے۔

مجھے 2018میں تبت میں اس کے ساتھ ساتھ سفر کا موقع ملا‘ یہ جھیلوں میں گم ہوتا اور نکلتا ہوا انڈیا کی طرف بڑھ رہا تھا‘پانی نیلگوں اور شیشے کی طرح صاف تھا‘ تبت میں آکسیجن بہت کم تھی‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ بلندی ہے‘ تبت دنیا کی چھت ہے‘ سطح سمندر سے اس کی بلندی اوسطاً 15 ہزارفٹ ہے اور اتنی بلندی پر آکسیجن کی کمی قدرتی بات ہے‘ دوسرا تبت میں درخت بہت کم ہیں‘ آپ کو سنگلاخ چٹانوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا‘ درخت آکسیجن کی فیکٹریاں ہوتے ہیں اور اگر یہ فیکٹریاں نہیں ہوں گی تو آکسیجن کہاں سے آئے گی چناں چہ ہم جہاں بھی گئے وہاں گاڑیوں سے لے کر دکانوں اور ریستورانوں سے لے کر ہوٹل تک ہر جگہ آکسیجن کے سیلنڈر پڑے تھے۔

آکسیجن کی کمی سے تبت کے ہر تیسرے شخص کی ناک سے خون بہہ رہا تھا‘  لوگوں نے اپنی ناک میں روئی ٹھونس رکھی تھی‘ یہ ایک پریشان کن صورت حال تھی لیکن تبت کے لوگوں کا کہنا تھا یہ صورت حال چند برسوں میں بدل جائے گی‘ تبت میں آکسیجن کا مسئلہ حل ہو جائے گا‘ ہم نے وجہ پوچھی تو ہمیں بتایا گیا حکومت دریائے یارلنگ کے ساتھ ساتھ کروڑوں کی تعداد میں درخت اور پودے لگا رہی ہے‘ یہ خاص پودے ہیں اور زرعی ماہرین نے یہ تبت کے ایکسٹریم موسم کو دیکھ کر تیار کیے ہیں‘ یہ تیزی سے جڑیں پکڑ رہے ہیں‘ چند برسوں میں بڑے ہو جائیں گے اور یوں تبت میں آکسیجن کا لیول بڑھ جائے گا۔

یہ بات درست تھی ‘مسافر نے اپنی آنکھوں سے تین سو کلو میٹر تک دریائے یارلنگ کے ساتھ ’’بلین ٹری سونامی‘‘ دیکھا‘ پہاڑوں پر بھی مٹی ڈال کر پودے لگائے جا رہے تھے اور یہ واقعی کمال تھا‘ چین کا دوسرا کمال دریائے یارلنگ پر ڈیمز کی تعمیر تھی‘ چین نے سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر تین بڑے ڈیم بنا دیے اور یہ مزید آٹھ بنا رہا تھا اور یہ تمام ڈیمز ایک ہی دریا پر تھے اور یہ کسی بھی طرح ہمارے منگلا اور تربیلا سے چھوٹے نہیں تھے اور یہ لوگ ان سے بجلی بھی پیدا کر رہے تھے۔

آپ ذرا تصور کیجیے ایک ہی دریا پر گیارہ بڑے ڈیم اور وہ بھی سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر‘ یہ لوگ وہاں مٹیریل کیسے لے کر گئے ہوںگے اور انھوں نے اتنے شدید موسم میں کام کیسے کیا ہو گا؟ عقل حیران ہو جاتی ہے لیکن کل میں نے اس سے بھی بڑی خبر پڑھی اور میں ششدر رہ گیا‘ چین نے پچھلے سال دریائے یارلنگ پر بھارت کی سرحد سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بنانا شروع کر دیا ‘ یہ ڈیم سائز میں بھی دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہو گا اور یہ اب تک کے ڈیمز کے مقابلے میں بجلی بھی سب سے زیادہ پیدا کرے گا اور اس پر یقینا اربوں ڈالر خرچ بھی ہوں گے۔

یہ منصوبہ یقینا حیران کن ہے لیکن اس سے بڑی حیرت یہ ہے یہ پراجیکٹ وہ ملک بنا رہا ہے جس کے انجینئر چالیس سال پہلے پاکستان کے ڈیمز دیکھنے آتے تھے‘ یہ لوگ ہمارے ڈیمز پر ریسرچ کرتے تھے مگر آج ہم کہاں ہیں اور یہ کہاں ہیں؟ دنیا میں سب سے زیادہ ڈیمز اس وقت چین میں ہیں‘ ان کی کل تعداد 98ہزارہے اور یہ دنیا کے مجموعی ڈیمز کے برابر ہیںاور ان ڈیمز میں 23ہزار8 سو 41 ڈیمز بڑے ہیں‘ چین ان ڈیمز سے لاکھ میگا واٹ بجلی حاصل کرتا ہے‘ چین کا خیال ہے یہ2050 اور 2060 کے درمیان اپنی ساری بجلی تھرمل سے ہائیڈرو پر شفٹ کر دے گا‘ اس کا صرف ایک شہر شنگھائی 54 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کرتا ہے جب کہ ہمارے پورے ملک کو 18 ہزار میگاواٹ بجلی چاہیے اور ہم عوام کو یہ بھی فراہم نہیں کر پاتے۔

یہ حقائق چند سوال پیدا کرتے ہیں‘ مثلاً کیا چین میں لوگ نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو کیا ان کے دماغ ہم سے بڑے ہیں یا اللہ تعالیٰ نے انھیں دس دس ہاتھ دے رکھے ہیں‘ دوسرا پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چین کا دنیا سے تعارف کرایا تھا‘ ہم نے 1971 میں چین کا امریکا سے رابطہ کرایا تھا‘ پی آئی اے دنیا کی پہلی ایئر لائن تھی جس نے چین کی سرزمین چھو کر دیکھی تھی اور یہ ہم تھے جنھوں نے چین کو پہلے تین طیارے تحفے میں دیے تھے اور ان میں سے ایک طیارہ ماؤزے تنگ استعمال کرتے تھے اور یہ آج بھی پاکستان کے شکریے کے ساتھ چین کے میوزیم میں کھڑا ہے۔

چین کی نیوی کو بھی ہم نے ٹرینڈ کیا تھا اور ڈیمز کی ٹیکنالوجی بھی چین نے ہم سے لی تھی لیکن یہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور ہم کہاں سے کہاں آ گئے‘ کیوں؟ اور تیسرا سوال یہ بڑے بڑے منصوبے چین میں کون بنا رہا ہے؟ کیا یہ سیاست دان‘ بیوروکریٹس اور مالیاتی ادارے نہیں بنارہے اور کیا یہ پراجیکٹس مکمل ہونے کے بعد بنانے والوں کو احد چیمہ کی طرح جیلوں میں پھینک دیا جائے گا؟ یہ سوال بہت اہم ہیں‘ ہم جس دن ان سوالوں کے جواب تلاش کر لیں گے آپ یقین کریں ہم اس دن چین بن جائیں گے لیکن افسوس ہم سوچنے کے لیے تیار ہیں اور نہ آنکھیں کھولنے کے لیے‘ آپ یقین کریں چینی ہم سے زیادہ ذہین ہیں اور نہ یہ ٹیکنالوجی میں ہم سے آگے ہیں۔

ہم آج بھی انھیں بلکہ دنیا کے بڑے سے بڑے ملکوں کو بھی ہرا سکتے ہیں مگر اس کے لیے ہمیں چند بڑے فیصلے کرنا ہوں گے اور پہلا فیصلہ کام کرنے والوں کی عزت ہے اور ہم یہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ہمیں ایٹمی طاقت کس نے بنایا تھا؟ ڈاکٹر عبدالقدیر نے ‘ یہ نہ ہوتے تو ہم آج ایٹمی طاقت نہ ہوتے لیکن ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ ہم نے ٹیلی ویژن پر ان سے معافی منگوائی اور پھر ان کے انتقال کا انتظار کرنے لگے‘ احد چیمہ بھی اس سلوک کی تازہ ترین مثال ہے‘ مجھے کوئی صاحب بتا رہے تھے میاں شہباز شریف عدالت میں احد چیمہ سے ملے تو اسے مبارک باد دی ’’چیمہ صاحب مبارک ہو اورنج لائن ٹرین چل گئی‘‘ احد چیمہ نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’سر میں تین سال سے جیل میں سڑ رہا ہوں‘ میرے بچے میرے بغیر جوان ہو رہے ہیں۔

میری ماں بیمار ہو گئی‘ میرے ایک بہنوئی تفتیش سہہ سہہ کر فوت ہو گئے اور میرا پورا خاندان ذہنی مریض بن چکا ہے اور آپ مجھے اورنج لائن کی مبارک باد دے رہے ہیں‘ سر میں نے کام کر کے بہت بڑی حماقت کی‘ میں نے فیصلہ کیا ہے میں جب باہر آؤں گا تو میں کام کرنے کی بے وقوفی نہیں کروں گا‘‘ میاں شہباز شریف خاموشی سے اسے دیکھتے رہے اور پھر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ آپ فرق دیکھ لیجیے وہ تمام بیوروکریٹس عزت کے ساتھ گھروں میں بیٹھے ہیں جنھوں نے سروس کے دوران تنکا بھی دہرا نہیں کیا تھا لیکن کام کرنے والا تین سال سے جیل میں بند ہے‘کیا ہم اس اپروچ کے ساتھ ترقی کر سکیں گے؟ میں نے چند دن قبل ایک صاحب اختیار سے عرض کیا ’’سر آپ اسے معاف نہیں کر سکتے‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’تمہیں اس میں کیا انٹرسٹ ہے۔

اس کا وکیل تک نہیں بولتا لیکن تم ہر دوسرے تیسرے دن اس کی وکالت کرتے ہو‘ کیوں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ یہ جان کر حیران ہوں گے میری اس شخص سے پوری زندگی میں صرف ایک ملاقات ہوئی‘ میں دل سے سمجھتا ہوں اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور اس کا حشر دیکھ کر پوری بیوروکریسی کام نہیں کر رہی‘‘ صاحب نے قہقہہ لگایا اور پوچھا ’’چائے پئیں گے یا کافی‘‘ میں 2018کے الیکشنز کے بعد لاہور سے آ رہا تھا‘ میرے ساتھ جہاز میں ایک صاحب بیٹھے تھے۔

تعارف ہوا تو پتا چلا وہ ان 56 کمپنیوں میں سے ایک کمپنی کے سربراہ ہیں جو میاں شہباز شریف نے اپنے دور میں پنجاب میں بنائی تھیں‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کا احتساب شروع نہیں ہوا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’مجھے آج تک کسی نے نہیں بلایا‘‘ میں نے وجہ پوچھی تو وہ بولے ’’ہم نے پانچ سال میں ایک فزیبلٹی رپورٹ کے سوا کوئی کام نہیں کیا تھا چناں چہ ہمارے خلاف کوئی کیس نہیں بنا۔‘‘

آپ ملاحظہ کیجیے جس شخص نے پانچ سال میں تنخواہیں اور مراعات اڑانے کے سوا کچھ نہیں کیا وہ مزے کر رہا ہے اور جس نے دن رات ایک کر کے کھربوں روپے کے منصوبے مکمل کر دیے وہ جیلوں میں سڑ رہا ہے لہٰذا پھرآپ خود بتایے کیا ہم چین کا مقابلہ کر سکیں گے؟ چین سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بنا رہا ہے اور یہ بنانے والوں کو میڈل بھی دے گا جب کہ ہم نالی پکی کرنے والوں کو بھی عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں چناں چہ پھر یہ ملک کیسے چلے گا؟ ہمیں بہرحال جلد یا بدیر یہ فیصلہ کرنا ہوگا ہم نے آگے جانا ہے یا پھر ہم نے اسی طرح پڑے پڑے سوکھ جانا ہے۔

فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے‘ ہم جتنی جلدی یہ فیصلہ کر لیں گے ہمارے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا ورنہ یہ یاد رکھیں وقت کسی کا ساتھ نہیں دیتا‘ قدرت کی نظر میں کوئی قوم مقدس نہیں ہوتی‘ حضرت داؤد ؑ کی قوم بھی جب وقت کا ساتھ نہیں دیتی تو وہ بھی فنا ہو جاتی ہے‘ ہم کس کھیت کی مولی ہیں‘ ہم وقت کے کون سے کزن ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *