اِک چراغ اور چراغ اور چراغ اور چراغ

معاشرے کے سب سے بڑے دشمن شاید وہ دانشور ہیں، جوصبح شام مایوسی کا گیت گاتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہماری تقدیر کا انحصار نیم خواندہ سے چند لیڈروں پر ہے۔ اقبالؔ سے تو وہ کچھ نہ سیکھ سکے، ڈاکٹر شان اینکر ہی سے سیکھ لیں۔
ایک طالب علم نے ڈاکٹر شان اینکرکے نظریے پر روشنی ڈالی تو وہ نکتہ اور بھی اجاگر ہوا، جس پر بہت دن سے سوچ رہا تھا۔
شان اینکر آکسفرڈ یونیورسٹی میں نفسیات کے استاد ہیں۔ اپنی تعلیم مکمل کر چکے تو انہیں اپنی مادرِ علمی سے وابستہ رہنے کی پیشکش ہوئی۔ آکسفرڈ یونیورسٹی اس وقت قائم ہوئی، شاہ جہاں جب اپنی چہیتی ملکہ ممتاز محل کی یاد میں تاج محل تعمیر کرا رہا تھا۔ سارا خزانہ جھونک دیا۔تب برصغیر کی معیشت دنیا کے ایک چوتھائی وسائل رکھتی تھی۔ بوجھ اس قدر پڑا کہ قحط کے شکار ہندوستان میں بھوک سے مرنے والوں کی داد رسی نہ ہو سکی۔ تاج محل پہ فخر کیا جا سکتاہے مگر اس کے سوا کیا ا س سے سیکھا جا سکتاہے کہ انسانی ادراک اور ذوقِ جمال کی کوئی انتہا نہیں ۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
یہ اقبالؔ نے کہا تھا۔ان کی یاد میں بھی ہم نے سنگ و خشت کی ایک یادگار ہی تعمیر کی، جس کا نظم و نسق سنبھالنے پر حریصانہ کشمکش جاری رہتی ہے۔
یہ وہی آکسفرڈ یورنیورسٹی ہے، جس میں کبھی غزالیؒ پڑھایا جاتا۔ مغرب تو کیا، مشرق میں بھی آج غزالیؒ کو پڑھنے والے کم ہیں۔ ایک صدی تک عالمِ اسلام پر جس کا علم لہراتارہا۔ کبھی اقبالؔ آکسفرڈ گئے تھے۔ زمان و مکان (Time and Space)پر لیکچر دینے… اور اس سے برسوں پہلے انہوں نے یہ کہا تھا:
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
مغرب نے غزالی ؒ سے فیض پایا اور اس کا تازہ ترین مظہر ڈاکٹر شان اینکر ہیں۔اس لیے انہیں جامعہ میں تدریس و تحقیق کی پیشکش کی گئی کہ نفسیاتی تجزیے میں ان کا ادراک غیر معمولی تھا۔ ایک ایسانظریہ انہوں نے پیش کیا کہ گرد و پیش کو چونکا دیا۔ غزالیؒ اور ابنِ جوزیؒ کی تعلیمات میں اس کا اوّلین سراغ ہے۔
دوسری بار جب اقبالؔ کو اسی موضوع پر لیکچر کی دعوت دی گئی تو ایک خط انہوں نے خواجہ مہر علی شاہؒ کو لکھا۔ خلاصہ یہ تھا: پچھلی بار آپ کے ساتھ مشورہ کر کے میں گیاتھا او راہلِ علم نے میرے خیالات کو سراہا۔ ہندوستا ن میں آپ کے سوا کوئی شخص نظر نہیں آتا، اس باب میں جو رہنمائی کر سکے۔ زیرِ بحث سوال یہ تھا کہ کیا وقت دائمی اور ابدی ہے یا پروردگار کی دوسری تخلیقات کی طرح ایک تخلیق۔ آدمی جس کا نخچیر او ر قیدی نہیں۔ اقبالؔ کا نقطہ ء نظر پہلے ہی واضح تھا ۔
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں، جن کا نہیں کوئی نام
طالبِ علمانہ ذہن مگر مطمئن کبھی نہیں ہوتا۔ وہ نئے آفاق اور نئی جہات کا متلاشی رہتاہے۔ غور و فکر، جستجو اور کھوج ہی علم ہے۔ رٹا ہوا سبق اور آموختہ نہیں، صدیوں سے ہم جسکے عادی ہو چکے۔ علم تقلید نہیں، تخلیق ہے۔ کھلے ذہن کیساتھ نئے افکار اور نظریا ت کا مطالعہ۔ خواجہ مہر علی شاہؒ ان نادرِ روزگار ہستیوں میں سے ایک تھے، جن کے بارے میں کہا جاتاہے کہ درویش تو وہ بلند پایہ تھے ہی مگر عالم اس سے بھی بڑے تھے۔ اقبالؔ کو انہوں نے سورہ کہف کے مطالعے کامشورہ دیا۔ اسلام کی علمی روایات سے خوب آشنا اور مغرب کی تحقیقات کے شناور، وہ اسی پر غور و فکر کرتے ہوئے لندن پہنچے۔
درویش کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو انہوں نے حدیث کا حوالہ دیا: علم حاصل کرو، خواہ تمہیں چین جانا پڑے۔ عرض کیا: علماء کی اکثریت اس حدیث کو مستند نہیں مانتی۔ فرمایا: پیمبرؐ کے سوا کون یہ بات کہہ سکتاہے۔ علم کے باب میں دوسری احادیث کا لہجہ بھی یہی ہے۔ مان لیجیے کہ حدیث یہ نہیں۔ حد سے زیادہ محتاط محدثین نے جن اقوال کو مسترد کر دیا، قولِ رسولؐ ہونے کا امکان بہرحال موجود ہے۔پھر کہا: اچھا، کسی تاجر نے کہا ہوگا، جو اس دیار سے آشنا تھا۔ جس نے دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیب کے مظاہر اپنی آنکھ سے دیکھے ہوں گے۔ حاصل یہی ہے کہ حیات کا فروغ علم سے وابستہ ہے۔
مغرب نے اس راز کو پالیا ہے اور نشو ونما پاتاہے۔ مشرق نے بھلا دیا اور خوار و زبوں ہے۔ صاف نظر آتاہے کہ ڈاکٹر شان اینکر انسانی ذہن کے اندازِ کار پہ ایک سائنسدان کی سی نظر رکھتے ہیں۔ انسانی دماغ میں ایک لینز کا سراغ انہوں نے لگایا ہے۔ اسی طرح کا لینز، جیساکہ کیمرے میں ہوتاہے اور جس کی مدد سے ہم تصویر بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس لینز کی کارکردگی کا انحصار آدمی کے اندازِ فکر پہ ہوتاہے۔ اگر وہ شکر گزار ہے، اگر اسے قدرت کی بخشی ہوئی نعمتوں کا احساس ہے تو انسانی ذہن پوری قوّت سے بروئے کار آتاہے۔ اس کے وہ تمام خلیے چمک اٹھتے ہیں، جو سیکھنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کتنی ہی آیات اور سرکارؐ کی کتنی ہی دعائیں ذہن میں جگمگا اٹھیں۔ ایک آیت کا مفہوم یہ ہے: اگر تم شکر کرو اور ایمان لاؤ تو وہ تمہیں اور زیادہ عطا کرے گا۔ بیسویں صدی کے مقبول ترین فلسفی برٹرینڈرسل نے کہاتھا: ہم چیزوں کے باہمی تعلق سے واقف ہیں مگر ان کی حقیقت سے نہیں۔ عالی مرتبتؐ دعا فرماتے ”اللّٰھم نبئنی بحقیقت الاشیا‘‘ یا اللہ مجھے چیزوں کی حقیقت سے آشنا فرما۔ دعا کی تلقین کیا کرتے: اللّٰھم اعنا علیٰ ذکرک و شکرک و حسن عبادتک۔ اے اللہ ہمیں اپنے ذکر کی، شکر ادا کرنے کی اور بہترین عبادت کی توفیق عطا فرما۔
ڈاکٹر شان اینکر کاکہنا یہ ہے کہ زندگی میں کامیابیوں اور ناکامیوں کا صرف دس فیصد انحصار خارج پر ہوتاہے، 90 فیصد آدمی کے اپنے اندازِ فکر پہ۔ اگر وہ مثبت اور صحت مندانہ ہے، اگر وہ تعمیری ہے تو سیکھنے اور بروئے کار آنے کا ولولہ عطا کرے گا۔ سائنسی اور علمی اندازِ فکر بخشے گا۔ ایک کے بعد دوسری منزل سر کرتا ہوا آدمی آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ ظفر مندی کا نمونہ۔ ہمارے آبا ایسے ہی تھے۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
ڈاکٹر شان یہ کہتے ہیں کہ آکسفرڈ کے اکثر طالبِ علم آسودہ گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کی زندگیوں میں مسرّت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ امید اور عزم سے خالی۔دس روزہ قیام کے بعد پروفیسر احمد رفیق اختر آئرلینڈ سے لوٹے تو یہ بتایا: درجنوں ڈاکٹروں سے ملاقات ہوئی۔ لرزا دینے والا انکشاف یہ ہوا کہ ہر تیسرا مریض خود کشی کے بارے میں سوچتا ہے۔ اقبالؔ نے یہ کہا تھا:
نہ ہو نو مید، نو میدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
مغرب کی ژولیدہ فکری او رذہنی درماندگی کا سبب تو سمجھ میں آتا ہے… روحانی افلاس! ہمیں کیا ہوا؟ ہمارے پاس تو وہ چراغ ہے، جو کبھی نہیں بجھتا۔ اقبالؔ سمیت، ہماری تاریخ تو ان نمونہ ہائے عمل سے بھری پڑی ہے کہ کسی ایک سے بھی اکتساب کریں تو ہر سو چراغاں ہو جائے ع
اِک چراغ اور چراغ اور چراغ اور چراغ
مایوسی! مایوسی قاتل ہے۔ لیڈروں کو چھوڑیے کہ اکثر دریوزہ گر ہوتے ہیں۔ معاشرے کے سب سے بڑے دشمن شاید وہ دانشور ہیں، صبح شام جو موت کا گیت گاتے ہیں۔ جو بتاتے ہیں کہ ہماری تقدیر کا انحصار نیم خواندہ سے چند لیڈروں پر ہے۔ اقبالؔ سے تو وہ کچھ نہ سیکھ سکے، ڈاکٹر شان اینکر ہی سے سیکھ لیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *