فارن فنڈنگ اور انقلاب؟

فارن فنڈنگ کیس نے حکومت اور اپوزیشن کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ہر روزنت نئے انکشافات میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ اپوزیشن پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ کے بارے میں کیس کے فیصلے میں تاخیر کے خلاف الیکشن کمیشن کے سامنے بھرپور مظاہرہ کر چکی ہے۔ یہ بنیادی طور پر مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ ن کا شو تھا جس میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو غائب تھے، وہ اسی روز عمرکوٹ میں جلسے سے خطاب کرتے نظر آئے۔ اس پر بعض عناصر کا ماتھا ٹھنکا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے جس کی بنا پر بلاول الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج میں نظر نہیں آئے لیکن جو لوگ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا ہنی مون مختصر ہو گا انہیں مایوسی ہو گی۔
مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی سیاسی طور پرایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن پی ٹی آئی حکومت کے بارے میں کسی کا بھی سافٹ کارنر نہیں ہے۔ ویسے بھی بلاول بھٹو سے متعلق 2018ء کے انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے صرف اس حد تک بات کی جا سکتی ہے کیونکہ ان انتخابات میں پیپلزپارٹی کو سندھ میں برتری حاصل ہوئی تھی جس کے نتیجے میں حسب سابق پارٹی کا کلہ کم از کم اندرون سندھ مضبوط ہے اور پی ایس 52 عمرکوٹ کے حالیہ ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے اتحادی جی ڈی اے کے امیدوار، سابق وزیر اعلیٰ سندھ غلام ارباب رحیم کو پیپلزپارٹی کے امیدوار امیرعلی شاہ سے منہ کی کھانا پڑی اور وہ 25 ہزار ووٹوں سے بری طرح ہار گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی اپنا تمام تر زور لگانے کے باوجود سندھ میں کوئی جگہ نہیں بنا سکی۔ اس پس منظر میں بلاول بھٹو کا الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج میں شریک ہونا کچھ عجیب سا لگتا۔
پی ٹی آئی جو چھ برس سے فارن فنڈنگ کیس کو مختلف حیلوں بہانوں سے التوا میں ڈلوا رہی ہے، اب کہتی ہے کہ ہم نے چالیس ہزار ڈونرز کی لسٹ الیکشن کمیشن کو دے دی ہے۔ ادھر شکایت کنندہ پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے سکروٹنی کمیٹی کے موجودہ طریقہ کار پر اعتراض کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ پی ٹی آئی کے 23 اکاؤنٹس ہمارے سامنے کیوں نہیں رکھے جا رہے اور معاملات کو کیونکر خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس بارے میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے کہ نمل یونیورسٹی اور شوکت خانم ہسپتال کیلئے فنڈز ریزنگ کا تجربہ ہے، دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں جو فنڈ ریزنگ کرتی ہیں عموماً یہ رقم چند سو ڈالرز تک محدود ہوتی ہے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے، یہ فنڈز غیرملکیوں کی طرف سے نہیں بلکہ اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے تھے۔ اگر بات اتنی سادا ہے تو برسراقتدار جماعت سارے اکاؤنٹس الیکشن کمیشن کے سامنے کیوں نہیں رکھتی۔ خان صاحب نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ کئی ممالک اپوزیشن جماعتوں کی فنڈنگ کرتے رہے ہیں لیکن تعلقات کی وجہ سے ان ممالک کے نام نہیں لے سکتا۔ فارن فنڈنگ کیس کی کھلی سماعت ہونی چاہیے، پارٹی سربراہوں کو بھی بٹھا کر کیس سننا چاہئے اور اسے ٹی وی پر براہ راست دکھایا جائے پتہ لگ جائے گا کس نے کہاں سے فنڈلیا۔ لیکن کیا خان صاحب اپوزیشن کے ’’ڈاکوؤں‘‘ کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر بیٹھنے کو تیار ہونگے‘‘؟۔
غالباً ان کا اشارہ مسلم لیگ(ن) کی طرف ہے کہ اسے بعض خلیجی ممالک کی طرف سے فنڈز ملتے رہے ہونگے۔ بہرحال فنڈنگ کے حوالے سے سیاسی جماعتوں پر خاصی نکتہ چینی ہو رہی ہے لیکن مذہبی جماعتوں اور ان کے مدارس چلانے کیلئے بیرونی ممالک سے فنڈنگ برسہا برس سے ہو رہی ہے۔ ہمارے دشمن دہشتگردی کیلئے بھی مختلف گروپوں کی مالی مدد کرتے رہتے ہیں، اسی کھلم کھلا کھاتے کی بنا پر ہی پاکستان ایف اے ٹی ایف کے ریڈار پر ہے۔ غنیمت ہے کہ ہم بلیک لسٹ میں نہیں ہیں لیکن تمام تر پاپڑ بیلنے کے باوجود ہمیں گرے لسٹ سے نہیں نکالا جا رہا۔امریکہ کے نئے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پاکستان کی طرف سے ایسے گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کو سراہا لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے یعنی امریکی نئی انتظامیہ بھی ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کرتی رہے گی کیونکہ ان کے خیال میں اس حوالے سے ہماری حکومتیں کمزوری کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔
وزیر خارجہ شیخ رشید نے جے یو آئی (ف) کو متنبہ کیا تھا اگر مولانا فضل الرحمان الیکشن کمیشن کے مظاہرے میں مدارس کے طلبا کو لیکر آئے تو ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔ مظاہرے میں بڑی تعداد میں جے یو آئی (ف) کے جھنڈے موجود تھے اور عملی طور پر حکومت نے احتجاج کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی اور مظاہرہ پرامن طریقے سے ختم ہو گیا نیز مظاہرین نے بھی ہنگامہ آرائی نہیں کی، یہ رویہ قابل تعریف ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے جنوبی وزیرستان میں خطاب اور صحافیوں سے گفتگو میں کہا پاکستان کو مدینے کی ریاست بنانے کی جدوجہد ہو رہی ہے، ان کے مطابق انقلابات کی شروعات ہو چکی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس بنا پر بڑے چوروں، ڈاکوؤں کا ٹولہ سڑکوں پر آ جاتا ہے اور ان کی شکلیں دیکھ کر یقین آ جاتا ہے کہ پاکستان میں انقلاب شروع ہو چکا ہے لیکن ہم اپنے اس استدلال پر قائم ہیں کہ انہیں این آر او نہیں دینا۔انہوں نے سابق آمر سے متعلق کہا پرویزمشرف جیساطاقتور شخص بھی ان ڈاکوؤں کا دباؤ برداشت نہ کرسکا اور دوبار این آر او دیکر ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ شاید خان صاحب کو بنی گالہ میں اپنے تین سو کنال کے گھر میں بیٹھ کر ارد گرد نظر دوڑانے سے یہی لگتا ہے کہ پاکستان میں انقلاب آ رہا ہے لیکن یہ کامیابی، خوشحالی اور انصاف کا بول بالا ہونے کی تصویر نہیں پیش کرتا بلکہ غربت، مفلسی اور انصاف کے نہ ملنے کی تصویر کشی کرتا ہے، یہ تو اس انقلاب کے آنے کا اشارہ کرتا ہے جو خدانخواستہ سب کچھ بہا کر لے جائے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *