زمین کروٹ بدل رہی ہے

ملک میں تو ہڑبونگ مچی ہوئی ہے‘ چلیے امریکہ چلتے ہیں۔ ویسے وہاں بھی کم ہنگامہ نہیں ہے تاہم امریکہ ‘ امریکہ ہے۔ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا اثر پوری دنیا پر پڑتا ہے اور دنیا میں تو ہم بھی ہیں۔
یادش بخیر جب ستر کے عشرے کے آغاز پر نکسن دوسری باری امریکہ کا صدر منتخب ہوا تو میں نے ایک ٹائٹل سٹوری تحریر کی نکسن سے ہمیں بہت امیدیں تھیں۔ جوش جذبات سے سرشار ہو کر بڑی محنت کی۔ اس زمانے کی محنت ذرا مشکل ہوا کرتی تھی۔ انٹرنیٹ کا تو زمانہ نہ تھا۔ اپنی اس سٹوری میں خوب تجزیے کئے۔ باقاعدہ الگ الگ سرخیاں جما کر یہ بتایا کہ نکسن کا امریکہ کیسا ہو گا امریکیوں کے لئے کیسا ہو گا‘ پاکستان کے لئے کیسا ہو گا اور دنیا کے لئے کیسا ہو گا اس کی داد بھی پائی یہ کوئی نصف صدی پرانی بات ہے نا۔ مجھے یاد آیا کہ چند دن کے اندر ہی نکسن حالات کے پھیرے میں آ گئے واٹر گیٹ سکینڈل اٹھ کھڑا ہوا۔ پہلے پہل تو دنیا یہی کہتی رہی کہ نکسن اس سے بے قصور نکل جائیں اور قصور ثابت بھی ہو گیا تو یہ کون سی اتنی بڑی بات ہے کہ اس پر امریکی صدر کے اقتدار کو بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ باقی سب تاریخ ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مواخذے سے بچنے کے لئے نکسن کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اس جری بدنامی کے باوجود امریکی سوسائٹی کا کمال یہ ہے کہ نکسن امریکی زندگی میں ہمیشہ فعال رہے۔ کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ یہ نہیں کہ انہیں تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا گیا۔ امریکہ معاشرہ اپنے ہر آدمی سے کام لینا جانتا ہے۔ یہی اس کی سماجی حرکیات ہے۔
یہ سب باتیں مجھے اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن حلف اٹھا چکے ہوں گے۔ مگر ٹرمپ شاید تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ نہ بنے ہوں گے۔ اس کے لوگ پورے امریکہ میں دندنا رہے ہوں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ کسی فرد کا نام نہیں یہ امریکہ میں اندر ہی اندر پروان چڑھتی ایک ایسی ذہنیت کا نام ہے جس کی کم از کم ہمیں تو خبر نہ تھی۔ ہم زیادہ سے زیادہ نو قدامت پسندوں(نیو کنزویٹو)سے باخبر تھے کہ یہ لوگ بنیاد پرست بھی ہیں۔امپریلسٹ بھی اور فاشسٹ بھی۔ فاشسٹ اس لئے کہ ان کے خیال میں امریکی اقدار اور اصول اتنے اعلیٰ ہیں کہ انہیں دنیا میں نافذ کرنے کے لئے طاقت بھی استعمال کرنا پڑے تو ضرور کی جائے۔ تاہم اتنا اندازہ نہ تھا کہ یہ فکر تو صرف آئس برگ کا وہ سرا ہے جو پانی سے باہر ہے۔ وگرنہ زیر آب تو برف کا ایک پہاڑ تیررہا ہے۔ یہ اندازہ نہ تھا کہ ایک ایسا شخص بھی آئے گا جو اس قدر سفید نسل پرست ہو گا کہ امریکہ کو صرف سفید فاموں کی برتری کی علامت سمجھتا ہے۔ باقی دنیا ہی کو نہیں‘ باقی امریکہ کو بھی اپنا دشمن گردانتا ہے۔اس نے تو امریکہ کے وہ سارے اصول اور ساری اقدار بھی ملیا میٹ کر دیں جن پر امریکہ کو ناز تھا اور جنہیں طاقت کے زور دنیا میں پھیلانے کی امریکی بات کرتے تھے۔ اندر ایک طوفان تھا ایک سونامی تھا جو جب باہر آیا تو پوری دنیا چونک اٹھی۔ تو خیال تھا کہ یہ صرف انتخابی نعرے میں ایسی باتوں پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکتا‘ مگر جب اس نے عملی قدم اٹھانا شروع کر دیے تو پتا چلا کہ امریکہ ہی نہیں بدل گیا وہ دنیا کو بھی بدل رہا ہے۔ اس نے پوری دنیا کا برسوں سے طے شدہ بندوبست تلپٹ کر کے رکھ دیا۔
خیر اس کا تذکرہ تو اس لئے کیا ہے کہ امریکی محاورے کے مطابق اب یہ تاریخ نہیں ہے‘ یعنی قصہ پارینہ نہیں ہے بلکہ اب بھی ایک زندہ حقیقت ہے۔ آنے والے صدر کے لئے سب سے بڑا کام اس کی چھوڑے ہوئے ملبے کو ٹھکانے لگانا ہے۔ امریکہ جیسا جمہوری معاشرہ بکھر چکا ہے۔ واضح طور پر تقسیم ہو چکا ہے۔ اس کی جمہورت تک پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ بلکہ دنیا بھر میں یہ پوچھا جا رہا ہے کہ آیا جمہوریت کے پردے سے اتنی آسانی سے فسطائیت جنم لے لیتی ہے۔ یورپ کے بہت سے ممالک میں ایسی تحریکیں زور پکڑنے لگیں جو ان خیالات کی ترجمان تھیں جتنے کتنے مودی اور نیتن یاہو دب کر رہ گئے‘ وگرنہ بہت خرابی ہوتی یہ جنگ اب بھی جاری ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ آیا جوبائیڈن امریکہ کو اپنی معمول کی حالت میں بحال کر سکے گا۔ میں نے ایک جگہ دیکھا ہے کہ اس کا تقابل روز ویلٹ سے کیا جا رہا ہے جس نے خوفناک کساد بازاری کے بعد بہت سختی سے ایسی پالیسیاں اختیار کیں کہ مریکہ دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہوا۔
جوبائیڈن ایک طویل عرصے سے امریکی سیاست کا فعال حصہ رہے ہیں۔وہ اوباماکے ساتھ نائب صدر ہی نہ تھے بلکہ اس سے پہلے اور بعد اہم ملکی معاملات پر سرگرم رہے ہیں۔ تین بار تو پاکستان آ چکے ہیں۔برصغیر کے حالات سے بخوبی آگاہ ہیں کشمیر کے حوالے سے بھی مثبت سوچ رکھتے ہیں۔ جب مشہور زمانہ کیری لوگر بل کے ذریعے ہمیں ایک پیکج دیا گیا تو جوبائیڈن اس کے پیچھے ایک فعال روح کے طور پر متحرک تھے۔ مجھے کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ جب بے نظیر کی شہادت کے بعد پاکستان میں زرداری کی حکومت بنی تو وہ پاکستان کے دورے پر آئے۔ واپسی پر انہوں نے ایک بیان میں انکشاف کیا کہ سب جانتے ہیں کہ یہ حکومت اور بندوبست 18ماہ یا دوسال تک رہے گا‘ پھر نئے انتخابات ہوں گے۔ شاید یہ عالمی ایجنڈے کا حصہ تھا جس پر عمل نہ ہو سکا جلد ہی پاکستان اسٹیبلشمنٹ اور عالمی اسٹیبلشمنٹ اس بات پر متفق ہو گئے کہ پاکستان میں یہ نظام پانچ سال تک چلتے رہنا چاہیے۔ یہ خبر ان دنوں ہمارے قومی میڈیا میں صرف دوچار سطروں میں شائع ہوئی تھی۔
اندازے غلط بھی ہو جاتے ہیں میں تو شروع ہی سے بتا چکا ہوں کہ نکسن پر میرے مضمون کا کیا بنا تھا۔ تاریخ کا پہیہ یوں حرکت میں آتا ہے کہ دنیا دار ذہانتیں دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ میں دو چار دنوں سے ایسے تبصرے سن رہا ہوں جن میں اندازہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ گویا جوبائیڈن کا امریکہ کیسا ہو گا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ توجہ اس بات پر ہے کہ خود امریکہ کے لئے کیسا ہو گا۔ جوبائیڈن کے لئے سب سے بڑا مسئلہ امریکہ کے امیج ہی کو بچانا نہیں امریکی روح کو بھی تحفظ دینا ہے۔ یہ روح بری طرح متاثر ہوئی ہے ،کمیونزم کے خلاف امریکہ نے یہ جنگ اس طرح لڑی تھی کہ دنیا کو بنایا تھا کہ روس میں انسانیت غلام ہے اور جمہوری قدریں ہی انسان کو وقار دلا سکتی ہیں۔ ٹرمپ نے امریکہ کے اس تصور کو تباہ کر دیا تھا۔ جوبائیڈن کو پھر بھٹکی ہوئی امریکی روح کے تعاقب میں نکلنا ہے اور اسے واپس امریکہ کے جسد سیاست میں واپس لانا ہے۔ یہ تو خیر بنیادی بات ہے‘ اس کے علاوہ بھی ٹرمپ معیشت‘ سفارت اور سیاست کی دنیا میں بہت سے سوال چھوڑ گیا ہے۔ یورپ سے امریکہ کے تعلق ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں‘ ٹرمپ نے اس پر ضرب لگائی خود امریکی براعظموں (شمالی اور جنوبی) میں اس کا ایک مخصوص مقام تھا، ٹرمپ نے اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کینیڈا ہو یا میکسکو اس کی زد میں رہے مشرق وسطیٰ میں اس نے جو پالیسی اختیار کی اس کی وجہ سے کہا جا رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ اب شاید چین کے زیر اثر ایک خطہ ہو گا۔ ٹرمپ نے چین سے بھی دشمنی شروع کر دی۔ نئی حکومت روس اور چین سے دوستی تو شاید نہ کرے مگر کئی معاملات پر امریکہ کے مفاد میں ان سے تعلق کی نوعیت بدلنے کی کوشش کرے گی۔
ہماری باری تو بہت بعد میں آتی ہے لیکن آئے گی ضرور۔ اس لئے کہ جوبائیڈن کی کھری ساخت اس زمانے کی ہے جب یہ خطہ بہت اہم تھا۔ اب بھی غیر اہم نہیں ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ وہ ہم سے بہت ہی اچھی طرح واقف ہے۔ اتنا اچھی طرح کہ اس سے پہلے کوئی امریکی صدر نہیں تھا۔ اور بری بات بھی یہی ہے کہ وہ ہم سے واقف ہے۔وما علیناالا البلاغ۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *