معلوم نہیں کہاں سے پوٹھوہار کے اس لافانی شاعر میاں محمد بخش کی آواز سنائی دی ۔
جتن جتن ہر کوئی کھیڈے‘ ہارن کھیڈ فقیرا
جتن دا مل کوڈی پیندا‘ ہارن دا مل ہیرا
صاحب بقا نے یہ کہا تھا‘ بقا اسی کو ہے‘ جس کاوجود دوسروں کے لیے منافع بخش ہو۔ رات سوچا‘ شاعری آدمیت کے لیے کیا لاتی ہے۔
تین بجے تھے‘ جب آخری شاعر کا چراغ بجھا۔ شام آٹھ بجے سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ خود اپنے ٹمٹماتے دیے کی بجھتی ہوئی لوکو بہت اذیت کے ساتھ بچانے کی کوشش کرتا رہا… تکان آنکھوں تک آ گئی‘ آنی ہی تھی۔
لاہور سے میلسی تک کا سفر آٹھ گھنٹے میں طے ہوا۔ شاعر ندیم بھابھہ‘ جس سے ملاقات کے لیے یہ مسافت سہی‘ یہ فاصلہ چار گھنٹے میں نمٹا دیتا۔
ذمہ دار بھلا کون تھا؟ لوگ کہتے ہیں‘ ایک ادبی غنڈہ۔
چراغ حسن حسرت کی مونچھوں والا‘ ایک جرائم پیشہ۔ مجھ سے لوگ ایسوں کی محبت ہی میں گرفتار ہوا کرتے ہیں‘ پچھتایا کرتے ہیں اور باز نہیں آتے۔
اپنے میر کارواں یعنی گاڑی کے ڈرائیور سے آج صبح معذرت کرلی تھی۔ میلسی تک پہنچنے کے لیے اب اس قافلے کو ایک نئے ڈرائیور کی ضرورت تھی۔ اپنی لگام اس کے ہاتھ میں تھما دی۔ منزل سے نہیں‘فقط مسافت سے دلچسپی باقی رہ گئی تھی۔
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
ان دنوں اسے تنہا چھوڑ رکھا ہے اور یہی اس ادبی غنڈے کے ساتھ قدر مشترک ہے۔ نواح میلسی میں قافلہ راہ سے بھٹک گیا۔ پٹھانے خاں کی گائی ہوئی خواجہ غلام فریدؒ کی کافیوں کے ہنگام بھی اگر نہ بھٹکتے تو کب بھٹکتے۔
میڈا عشق وی توں‘ میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں‘ ایمان وی توں
میڈا جسم وی توں‘ میڈا روح وی توں
میڈا قلب وی توں‘ جند جان وی توں
میڈا کعبہ‘ قبلہ‘ مسجد‘ منبر‘ مصحف تے قرآن وی توں
میڈے فرض‘ فریضے‘ حج‘ زکاتاں
صوم‘ صلواۃ‘ اذان وی توں
میڈا ذکر وی توں‘ میڈا فکر وی توں
میڈا ذوق وی توں‘ وجدان وی توں
میڈا سانول مٹھڑا شام سلونڑا
من موہن‘ جانان وی توں
میڈا مرشد‘ ہادی‘ پیر طریقت
شیخ حقائق دان وی توں
میڈا آس امید تے کھٹا وٹیا تکیہ مانڑ‘ترا نڑوی توں
میڈا دھرم وی توں‘ میڈا بھرم وی توں
میڈی شرم وی توں‘ میڈی شان وی توں
ہماری منزل ڈھلوں تھی۔ منصور آفاق اسے دلو کہتے اور دیہاتیوں کو دکھی اور پریشان کرتے۔ چنانچہ میلسی سے پانچ میل کے فاصلے پر ندیم بھابھہ کا گاؤں سینکڑوں میل کی مسافت پر چلا گیا۔ خیالات کی وادیوں میں بھٹکنے والے شاعر‘ خیالات کی وادیوں میں بھٹکنے والا اخبار نویس۔
یہ صوفی شاعر ندیم بھابھہ کی کتاب ” حال‘‘ کی تقریب رونمائی تھی۔ اخبار نویس کے لیے ایسی کسی تقریب میں شرکت کا یہ اولین موقع تھا۔ کئی دن سے دل ویران سا تھا۔ آج کسی کے طفیل آباد ہوا۔ لگا کہ آنکھیں بھیگ سی گئی ہیں۔ کون کب تک خود کو تھامے رکھتا؛
دل صورت اس یار کی اور جسم پرویا عشق میں
مرا حسن مکمل ہو گیا‘ میں اتنا کھویا عشق میں
میں پاپی کوڑھی عشق کا‘ میں کمّی اپنے یار کا
میری ساری میل اتار دی‘ سرکار نے دھویا عشق میں
میں شور زدہ اک خاک تھا‘ میرا وارث مجھ میں آ بسا
میرے آنسو میٹھے ہو گئے‘ میں اتنا رویا عشق میں
عشق میں جاگتا سوتا ندیم بھابھہ یہاں تک کیسے آ پہنچا ہے؟ میں مفلس اپنے آپ سے پوچھتا رہا۔ اسے دیکھتا رہا۔ چہرے مہرے سے‘ لب و لہجے سے‘اک بالکل ہی عام سا آدمی‘ روایتی جاگیردارانہ پس منظر سے وہ ابھرا ہے۔ مالک‘ اس میں کون سا وصف تھا کہ اسے عطا ہوا؟ ان کا کیا
قصور تھا جو محروم رکھے گئے؟ سرجھکا کے مسافر سوچتا رہا۔اپنی جھولی کے چھید کس کو نظر آتے ہیں۔ کتنے زمانے سیاست اور صحافت کے صحراؤں میں بیت گئے۔ مذہبی ریاکاروں کی بستیوں میں‘ مومنوں کے ہجوم میں۔
اک قوم کی حیثیت سے ہم کہاں جا رہے ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔ بس ایک کوہستانی اتار چڑھاؤ کا احساس چلتے قدموں کو ہر لمحہ ہوتا رہتا ہے۔ بستیوں کی طرف جانے کی یہ خبر بھی کبھی کبھی کسی اخبار میں چھپتی ہے۔ وہ اخبار بھی کبھی کبھی کسی کے باطن میں کھلتا ہے۔
شمال کی وہ رفعتیں‘ جہاں کبھی روشنی اور خوشبو کے چشمے تھے۔ وہ بلندیاں نشیب کیسے ہو گئیں۔ چمکتا ہوا وہ دن رات کیسے ہو گیا۔ جنگ جاری ہے۔ بات چیت بھی جاری ہے۔
وزیراعظم اور ان کے وزیرخارجہ،وزیر داخلہ اور سپہ سالار بار بار خوش خبری دیتے ہیں‘ مگر اعتبار کیوں نہیں آتا۔
اپنے آپ سے محبت کرنے والے یہ ظفر مند لوگ‘ یہ فاتحین، یہ قہرمان‘ کیا کبھی کسی بستی کے لیے کوئی نوید لائے ہیں؟ تب معلوم نہیں کہاں سے‘ پوٹھوہار کے اس لافانی شاعر میاں محمد بخشؒ کی آواز سنائی دی ؛
جتن جتن ہر کوئی کھیڈے‘ ہارن کھیڈ فقیرا
جتن دا مل کوڈی پیندا‘ ہارن دا مل ہیرا


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *