اپنے گزشتہ کالم میں مینجمنٹ اور ورک ، لائف بیلنس کے حوالے سے مشہور فور برنرز تھیوری پر بات کی تھی۔ اس تھیوری کے مطابق آپ کی زندگی سے چار چولہے یا برنر منسلک ہیں، انہیں آپ کے وجود ہی سے انرجی یا گیس ملتی ہے۔پہلا چولہافیملی(اہل خانہ)، دوسرا کیرئر، تیسرا صحت اور چوتھا دوست احباب۔ انسان کی زندگی کے یہ چار اہم ترین گوشے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ان سب کو کس طرح بیلنس رکھنا ہے تاکہ کوئی اہم شعبہ نظرانداز نہ ہو۔ فور برنر تھیوری کے مطابق ہر کامیاب آدمی کو کم از کم ایک چولہے کو بند کرنا پڑتا ہے تاکہ اپنی انرجی دوسرے اہم شعبوں پر کھپا سکے، جبکہ غیر معمولی کامیاب ہونے کے لئے دو چولہے بجھانے پڑتے ہیں۔کئی ایسے جو دوستوں یا اہل خانہ کی قربانی دے اپنے کیرئر پر فوکس کرتے اور میدان مار لیتے ہیں۔بعض لوگ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر کی زندگی گزارتے ہیں، کام کاج پر توجہ اور باقی وقت بیوی بچوں کے لئے وقف۔کچھ لوگ یاریاں نبھاتے ہیں چاہے ان کی ملازمت یا کیرئر کا بیڑا غرق ہوجائے۔
فور برنر تھیوری کے حوالے سے ماہرین مفید مشورے بھی دیتے ہیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ کچھ کام آئوٹ سورس کر لئے جائیں۔ ایک فل ٹائم ڈرائیور آپ کی بہت سی توانائی بچا لے گا۔ بچوں کو سکول لے جانے ، واپس لے آنے سے لے کر سودا سلف منگوانے تک کی ذمہ داری بچ جائے گی، ٹریفک جام میں آپ آرام سے پیچھے بیٹھے ای میلز کا جواب دے لیتے ہیں، اہم فون کالز کر لی جاتی ہیں۔جز وقتی یا کل وقت ملازمہ رکھ لینے سے ملازمت کرنے والی خاتون کے لئے آسانی پیدا ہوجائے گی۔
ایک مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ اپنے وقت کے بجائے توانائی کو درست استعمال کریں۔آن لائن یا فری لانس کام والے اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تب زیادہ کام کریں، جب جسمانی اور ذہنی طور پر مستعد محسوس کریں۔تین چار عشروں سے پاکستان کے بیسٹ سیلر مصنف مستنصر حسین تارڑ نے مجھے ایک بار بتایا تھا کہ انہوں نے لکھنے کو اپنی تخلیقی توانائی کے مطابق تقسیم کر رکھا ہے۔ صبح کو وہ پارک میں واک کے بعد چند گھنٹے لکھا کرتے ہیں، پھر تھوڑا بہت سہہ پہر میں۔ممتاز نقاد، مصنف ڈاکٹر جمیل جالبی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ نصف شب کے بعد یعنی ایک دو بجے اٹھ کر لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہیںتاکہ کوئی ڈسٹرب نہ کر سکے۔نوبیل انعام یافتہ ادیب گارشیا مارکیز کا کہناتھا کہ وہ صبح ناشتے کے بعد آٹھ نو بجے سے تین بجے سہہ پہر تک متواتر لکھتا ہے، باقی وقت اہل خانہ ، دوستوں کے لئے۔ جاپانی ادیب ہاروکی موراکامی بھی کچھ ایسے ہی بیان کرتے ہیں، صبح چھ گھنٹے کا تخلیقی کام، سہہ پہر کو کئی میل کی دوڑ یا گھنٹے بھر کی پیراکی۔ خوشونت سنگھ بھی صبح ٹینس کھیلنے یا سوئمنگ کے بعد لکھا کرتا تھا ، دوپہر کو کچھ قیلولہ اور پھر سہہ پہر میں تھوڑا کام، شام کو اپنے پینے پلانے کی محفل، دوستوں سے ملاقات، رات کو کھانے کے فوری بعد سو جانا۔ اس کا کہنا تھا کہ صبح کے وقت اس کی تخلیقی قوت جوش پر ہوتی ہے۔
کام اور زندگی میں توازن لانے کے حوالے سے ایک تجویز یہ دی جاتی ہے کہ زندگی کے مختلف مراحل میں ان چولہوں کو تیز، دھیما کر لیا جائے۔ شادی سے پہلے تمام تر زور کیرئر پر لگایا جائے تاکہ مالی طور پر استحکام پیدا ہو۔ شادی کے بعد گھر والا چولہا کچھ تیز جبکہ باقیوں میں کمی لائی جائے۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ صحت والا شعبہ زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ تب ترجیح صحت بن جاتی ہے کہ زندہ رہیں گے تو باقی کام کاج نمٹا پائیں گے۔ آج کل کے حساب سے دوست احباب کے برنر میں سوشل میڈیا اور وہاں بننے والے فرینڈ بھی شمار کر لئے جائیں۔ کئی لوگ اپنے کسی اہم پراجیکٹ پر کام کرتے ہوئے فیس بک اکائونٹ بند کر دیتے ہیں یا چند ماہ کے لئے سوشل میڈیا سے دوری اختیار کر لیتے ہیں تاکہ تمام فوکس کام اورپھر تھوڑا بہت گھر وغیرہ پر لگایا جائے۔ صورتحال اور اپنی ترجیحات کے مطابق شفلنگ کرنا مناسب حکمت عملی ہے۔
یہاں پر اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی میں صرف یہ چار چولہے تو نہیں ہوتے؟ایک اور بہت اہم بلکہ مرکزی نوعیت کا برنر ایسا ہے جسے ان چاروں کے درمیاں میں ہونا چاہیے یا اس کا سائز بڑا ہو۔ وہ پانچواں چولہا یا برنر بندگی کا ہے۔ رب تعالیٰ کی بندگی ، اس کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا۔ دلچسپ بات ہے کہ بیشتر مغربی ماہرین کے مواد میںصرف چار برنرز کا ذکر ملتا ہے یا کسی حد تک روحانی پہلو بھی آ جاتا ہے۔، روحانی پہلو بھی ایک مبہم اصطلاح ہے،ضروری نہیں اس کا دین سے تعلق ہو۔ روحانیت کا دعوے دار تو فری سیکس اور بہت سی متنازع تھیوریز کا بانی گورو رجنیش بھی تھا۔ یہ حضرت اپنی زندگی میں اتنے بدنام ہوگئے کہ ان کے پیروکاروں نے اپنے گرو کی موت کے بعد ایک نئے نام ’’اوشو ‘‘سے اسے متعارف کرایا۔ مقصد یہی کہ گورورجنیش سے وابستہ بدنامی اور تنازعات کی گرد چھٹ جائے۔ ہمارے ہاں بھی اوشو کی کئی کتابیں ترجمہ ہوئی ہیں، کہیں کہیں کسی خوبصورت دلچسپ جملے کے سوا اس کی فکر میں کچھ نیا نہیں۔ تشکیک، لادینیت، یوگ، کچھ قدیم ہندو نظریات اور تبتی لامائوں کے افکار کا ملغوبہ ۔ یہی ایک اور ماڈرن جوگی بابا سدگرو کامعاملہ ہے۔
پانچواں چولہا اس لئے اہم ہے کہ انسا ن کی وجہ تخلیق بھی یہی ہے۔ انسان دنیا میںصرف پیسے کمانے، دوستیاں نبھانے ،بیوی بچوں کی نازبرداری کرنے اورپہلوان بننے نہیں آیا۔ زندگی میں بہت سا پیسہ کمانے، وسیع حلقہ احباب اور خوش وخرم اہل خانہ رکھنے والے ، مثالی صحت کے حامل لوگ بھی ایک خاص مرحلے پر جا کر بے یقینی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تب احساس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک خاص سطح کے بعد بے معنی، بے کار ، لاحاصل ہے۔جب زندگی کی ڈور کٹنے لگتی ہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی بھر جو سمارٹ مینجمنٹ کی، ماہرین کے بتائے فارمولوں پر عمل کر کے جو حاصل کیا، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سب کچھ پا کر بھی کچھ نہیں ملا۔ کامیابیوں کے سکیل پر جتنے پوائنٹ حاصل کئے، وہ سب صفر جمع صفر برابر صفر ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو کسی اور مقصد کے لئے تخلیق کیا ۔ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے، جہاں اس کی کارکردگی پر ہی ابدی زندگی میں اس کا مقام طے ہوگا۔ دنیا میں اچھا کرے گا تو روز آخرت اسے اچھا صلہ ملے گا۔خلق خداپر ظلم اور زیادتی کرنے والے اس دن بدترین انجام کو پا لیں گے۔خدا کے نافرمان، اللہ کے آخری پیغمبر ﷺ کے بتائے طریقے پر نہ چلنے والے روز آخرت بری طرح پچھتائیں گے۔ بار بار وہ منت کریں گے کہ ہمیں ایک موقعہ اور دیا جائے، اس بار ہم غیر معمولی پرفارمنس دیں گے۔ انہیں موقعہ نہیں ملے گا، انہوں نے اپنا چانس خود گنوایا ، اب کیسے شکوہ کر سکتے ہیں؟
صاحبو ! اصل نکتہ یہی ہے کہ پوری کائنات کو روشن کردینے کی قوت رکھنے والے اس پانچویں چولہے کو ہم اپنی زندگی میں کتنی اہمیت دیتے ہیں؟اگر کوشش کر کے ہم اپنی زندگی کو رب کے بتائے طریقوںکے مطابق ڈھال لیں تو پھر زندگی کے باقی چولہے جلانا آسان ہوجاتا ہے۔ برکت کی صورت میں ایک بڑا شعلہ ساتھ شامل ہوجاتا ہے۔ کم وقت میں زیادہ کچھ حاصل ہوجاتا ہے۔ تب وقت ، صلاحیتوں ، توانائی ،تعلق، رشتوں غرض ہر چیز میںغیر محسوس انداز سے بہتری آ جاتی ہے۔ یہ رب تعالیٰ کی رحمت، برکت اور نعمت ہے، جس کے لئے دعا مانگنی چاہیے، عمل کو شیوہ بنانا چاہیے۔
بندگی کا تصور دراصل پوری زندگی کو ایک بڑا اور ارفع مقصد عطا کر دیتا ہے۔ تب کامیابی، ناکامی کے پیمانے بھی بدل جاتے ہیں۔ دنیا کی مشکلات، کٹھنائیاں اوررکاوٹیں بھی زیادہ تکلیف دہ نہیں لگتیں۔ انسان کی توجہ اخروی نجات اور اس ابدی زندگی میں اعلیٰ مقام پانے پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میںصرف آخرت نہیں بلکہ دنیا بھی سنورتی ہے، زندگی بھی آسان ہوجاتی ہے۔ جب مظلوم کی آہ نہ لی جائے، لوگوں کی زندگیوں میں آسانی پیدا کی جائے تب وہ سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جس کا مقابلہ زروجواہر کا پہاڑنہیں کر سکتا۔
اللہ کے بتائے طریقہ پر اہل خانہ کے لئے رزق حلال کی جدوجہد عبادت بن جاتی ہے۔ عزیز اقارب کا خیال رکھنا صلہ رحمی جیسا خوبصورت فعل ہے۔ حرصِ طعام ختم ہوجائے تو خوراک گھٹ جاتی ہے، چربی کے تودے بھی گھل جاتے ہیں۔ اپنے رزق میں دوسروں کا رزق شامل کر لیا جائے، اپنی آمدنی کا ایک حصہ چیریٹی پر خرچ کیا جائے تو یہ ممکن نہیں کہ آمدنی میں اضافہ نہ ہو۔ماں باپ کی دل سے خدمت کی جائے توآدمی کی اپنی اولاد بھی رب کے حکم پر فرماں بردار ہوجاتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں بے شمار ایسے لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کی اور پھرجب ان میں توانائی نہ رہی، تب اپنے بچوں سے ویسی محبت ملی۔ اپنی زندگی کو اللہ سے جوڑنے والے، اس کی رضا میں راضی ہوجانے والوں کو آخری وقت مطمئن اور آسودہ ہی پایا۔
مزے کی بات ہے کہ اس پانچویں چولہے کو جلانے کے لئے باقیوں کو بجھانانہیں پڑتا۔ پانچویں چولہا البتہ باقی چاروں پر مثبت انداز میں اثرانداز ہوتا ہے، ان چارو ں کا شعلہ بڑھتا ہے ، کم نہیں ہوتا۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *