سب محفوظ تو ہم محفوظ!

پاکستان میں بیڈ گورننس اور نظام کی خرابی کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ایک وجہ جس پر اتنی زیادہ بحث نہیں ہوتی، وہ ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقے کا مخصوص مائنڈ سیٹ ہے۔ یہ مخصوص مائنڈ سیٹ یا تو نظام کی بدحالی کی وجہ بنتا ہے یا پھر نظام کی بہتری میں رکاوٹ۔ سرکاری تعلیمی نظام کا زوال تب شروع ہوا جب اِس طبقے کے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنا شروع ہو گئے۔ سرکاری صحت کا نظام اِس لئے بہتر نہیں ہو پایا کیونکہ یہ طبقہ اپنا علاج باہر سے یا بڑے اسپتالوں میں کرآنا شروع ہو گیا۔ بنیادی حقوق جیسے پاسپورٹ یا شناختی کارڈ کے معاملے میں بھی جب دفاتر میں رش ہوا تو اِسی طبقے نے اپنے لئے ایگزیکٹیو سینٹرز بنوا لئے جہاں زیادہ رقم اور فیس کی وجہ سے عام پاکستانی نہیں جا سکتا۔ جہاں کہیںچیزیںبالکل الگ نہیں کی جا سکتیں وہاں پر معاملاتتھوڑے بہت بہتر نظر آتے ہیں۔ تمام پوش علاقوں میں جہاں یہ طبقہ رہتا ہے اور بڑی شاہراہوں جہاں سے اس طبقے کا گزر ہوتا ہے، کی روڈ ٹھیک بھی ہیں اور کھلی بھی۔ اسد عمر صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ طبقہ اگر اپنی بڑی گاڑیوں کے لئے الگ روڈ بنا سکتا تو وہ بھی بنا لیتا۔ یہ ایک سوچ ہے جس کی وجہ سے ہمارے بہت سے نظام آج تک خراب ہیں اور آج بھی ہمارا یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ وہ اگر اپنے لئے سہولیات پیدا کرتا رہا اور باقی عوام سے اپنے آپ کو الگ رکھتا رہا تو اُس کا کام چلتا رہے گا اور نظام کو صحیح نہ کرکے وہ پاکستان کی بیشتر عوام کو ابھرنے سے روکتا رہے گا اور اپنی جاگیر داری قائم رکھے گا۔ کیونکہ اگر مزدور کا بچہ اچھی تعلیم حاصل کر لے گا تو کل کو اِس طبقے کے لئے سستے داموں مزدوری کون کرے گا؟ یہ ہمارے معاشرے اور نظام کے تلخ حقائق ہیں۔

اب کورونا وائرس کی ویکسین کے معاملے میں بھی یہی سوچ نظر آرہی ہے۔ حکومت نے ابھی تک صرف ایک ویکسین منظور کی ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ کمپنیاں اور صوبے اِس کو خود درآمد کریں گے یعنی حکومت اِس بات کی کمٹمنٹ نہیں کر رہی کہ ہر پاکستانی یا چلیں ہر غریب پاکستانی کے لئے یہ ویکسین مفت میں دستیاب ہوگی۔ اگر آکسفورڈ ویکسین کی بات کی جائے تو اُس کی ایک خوراک کی قیمت چار ڈالر ہے اور ہر فرد کو دو خوراکوں کی ضرورت ہوتی ہے تو ایک شخص پر خرچہ آٹھ ڈالر کا ہے جس میں میں درآمد کنندہ کا منافع، سرنج اور اِس کو لگانے کے پیسے شامل نہیں ہیں۔ اگر فی بندہ پندرہ سو روپے بھی خرچہ آتا ہے ہیں توایک مزدور ہے اپنے سب گھر والوں کو یہ ویکسین کیسے لگوا پائے گا؟ ڈبلیو ایچ او کا پروگرام COVAXجو فری میں ویکسین دے گا، اُس کے تحت صرف بیس فیصد آبادی کو ویکسین میسر ہو پائے گی۔ ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ 18سال سے کم عمر کے افراد کو ویکسین نہیں لگے گی جبکہ ویکسین بنانے والی کمپنیاں اب یہی ٹیسٹ کر رہی ہیں کہ 12سے 18سال تک کے لوگوں میں ویکسین کی کارکردگی کیا ہے؟ اور شاید اِس کی ضرورت پڑے کہ ہم بچوں کو بھی یہ ویکسین لگائیں۔

سہیل وڑائچ صاحب نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ پاکستان کے کرتا دھرتا ویکسین لگوا چکے ہیں اور پاکستان میں ویکسین جلد سے جلد لانے کی اُس طرح کوشش نہیں کی جا رہی۔ کورونا وائرس یہ نہیں دیکھتا کہ کون امیر ہے اور کون غریب۔ ماہرین بار بار کہتے ہیں کہ سب کو ویکسین لگانا اِس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر سب محفوظ نہ ہوئے اور وائرس پھیلتا رہا اور اپنی شکل بدلتا رہا یعنی میوٹیٹ ہوتا گیا تو ایسا بھی ممکن ہے کہ ویکسین مؤثر نہ رہے اور جن کو ویکسین لگی ہے، وہ بھی دوبارہ بیمار ہو جائیں۔ اگر سب کو ویکسین لگ گئی تو تب ہی اِس خطرے سے ہم بچ سکتے ہیں۔ برطانیہ، ساؤتھ افریقہ اور برازیل میں وائرس کے نئے ویریئنٹ آ چکے ہیں۔ برطانیہ والا ویریئنٹ تیزی سے پھیلتا ہے اور ساؤتھ افریقہ والے ویریئنٹ کے بارے میں یہ خدشہ ہے کہ ویکسین اُس پر اتنی موثر نہ ہو۔ ہمارے پاس وقت کافی کم ہے، یہ نہ ہو کہ پاکستان کے کسی کونے سے اِس کی نئی اور خطرناک شکل نکل آئے۔ حکومت کو اِس پر بھی سوچنا ہوگا کہ اگر ویریئنٹ آتے رہے اور ہر سال یا ہر کچھ سال بعد نئی ویکسین کی ضرورت پڑی تو تب کیا کیا جائے گا؟

ہمیں وائرس کے بارے میں اب بھی بہت کچھ معلوم نہیں ہے لیکن ویکسین ہی اُس کا بہترین حل ہے۔ ویکسین بھی صرف تب ہی موثر ہے اگر وہ سب کو لگےگی۔ اس لئے امیر ممالک کو ماہرین بار بار یہ تاکید کرتے ہیں کہ کوئی محفوظ نہیں جب تک سب محفوظ نہیں ہوں گے۔ ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقے کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہےکہ وہ تب ہی محفوظ ہوں گے جب معاشرے کے باقی افراد بھی اِس وائرس سے محفوظ ہوں گے۔

بالی وڈ اداکارہ عالیہ بھٹ کو تھکاوٹ اور متلی کی شکایت پر اسپتال منتقل کرنا پڑگیا تاہم کچھ دیر بعد طبیعت بہتر ہونے پرانہیں ڈسچارج کردیا گیا۔

بالی وڈ کے مشہور اداکار نواز الدین صدیقی فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں لندن روانہ ہوگئے۔

پاکستان کی معروف اور باصلاحیت اداکارہ سجل علی 27 سال کی ہوگئیں۔ان کو خاص دن پر مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔

ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نےکہا کہ فارن فنڈنگ کیس ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل ہے

ریچا چڈھا نے اپنی فلم ’میڈم چیف منسٹر‘ کے پوسٹر سے متعلق ملنے والی دھمکیوں پر جواب دیتے ہوئے ٹوئٹ میں کہا کہ ہم نہیں ڈرتے۔

آصف زرداری نے عمرکوٹ ضمنی انتخاب جیتنےپر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ پی ایس 52کےعوام کا بے حد مشکور ہوں۔

آزاد کشمیر میں مطلع جزوی ابرآلود ہے جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقے دھند کی لپیٹ میں ہیں۔

حریم شاہ کا کہنا ہے کہ مفتی عبدالقوی دو روز سے اُن کے ساتھ نازیبا گفتگو کر رہے تھے

امیر علی شاہ کا کہنا تھا کہ آج کی جیت اسی خدمت کا نتیجہ ہے

جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں میزبان شاہ زیب خانزادہ نے وفاقی وزیر شبلی فراز سے سوال کیا کہ حکومت تو ملک سے لوٹی ہوئی رقم واپس لانا چاہ رہی تھی

انہوں نے کہا کہ الیکشن کے دوران وزیراعظم نے ایک کروڑ گھر بنانے کا وعدہ کیا تھا، آج وہ غریبوں سے چھت چھین رہے ہیں۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ بڑے عرصے بعد کسان کو گنے کی صحیح قیمت مل رہی ہے۔

گرفتار ملزمان کو مزید تفتیش کے لئے سی ٹی ڈی کے حوالے کردیا گیا۔

غیر سرکاری،غیرحتمی نتیجہ کے مطابق جی ڈی اے کے ارباب غلام رحیم30921ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے ہیں ۔

ترجمان موٹروے پولیس کے مطابق قومی شاہراہ پر چوہنگ، مانگا منڈی پھول نگر، پتوکی، حبیب آ باد، رینالہ خورد، اوکاڑہ، ساہیوال، ہڑپہ، چیچہ وطنی اور کسوال میں بھی شدید دھند چھائی ہے


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *