امریکہ پاکستان ایک دوسرے کیلئے ضروری کیوں؟

دس ہزار میل سے زیادہ فاصلے۔ لیکن امریکہ اور پاکستان میں ہمیشہ قربتیں رہی ہیں۔

یہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت کیوں ہیں؟

اس دو طرفہ تعلق سے فائدہ کس نے زیادہ اٹھایا ہے؟

میں رات سے سوچ رہا ہوں کہ اس انتہائی اہم موضوع پر بات کی جائے۔ کیونکہ تین دن بعد نو منتخب صدر جوبائیڈن حلف اٹھانے والے ہیں۔ یہ حلف برداری بندوقوں کے پہرے میں ہوگی۔ واشنگٹن میں قریباً ایک ڈویژن15سے 20ہزار مسلح نیشنل گارڈز متعین کردیے گئے ہیں۔ مواخذہ زدہ صدر ٹرمپ کے حامی کسی وقت کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ مختلف ریاستوں سے ٹرمپ نواز واشنگٹن کا رُخ کررہے ہیں۔ ہمارے لیے تو ملٹری۔ پیرا ملٹری۔ پہرے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن دو صدیوں سے جمہوریت۔ شہری آزادیوں۔ نظم و ضبط سے زندگی گزارنے والے امریکیوں کے لیے بالکل انوکھی اور افسوسناک صورت حال ہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنی اولادوں سے پیاری پیاری میٹھی میٹھی باتیں کرنے کا دن۔ مستقبل ان کو ہی سنبھالنا ہے۔ اس لیے امریکہ پاکستان تعلقات کی تاریخ ان کے سامنے دہرانی چاہئے۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاک امریکہ بندھن نسل در نسل جاری رہتا ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ ان تعلقات سے ہماری نسلوں کو کیا ملا۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے ملک کے مفادات سامنے رکھے یا ذاتی فائدوں کو ترجیح دی۔ آپ کے آس پاس بھی بے شمار ایسے خاندان ہوں گے جن کے آدھے پیارے امریکہ میں جابسے ہیں۔ کچھ گرین کارڈ پر ہیں۔ زیادہ تر امریکی شہری بن چکے ہیں۔ ہمارے ریٹائرڈ بیورو کریٹ۔ جنرل۔ بریگیڈیئر۔ سفارت کار۔ امریکہ میں عمر کا آخری حصّہ بسر کررہے ہیں۔ ہمارے نوجوان اتنا پاکستان کے بارے میں نہیں جانتے جتنا امریکہ کی سیاست۔ معاشرت۔ فلموں کتابوں کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔ واٹس ایپ، فیس بک اور نزدیک لے آئی ہے۔ ہمارے سیٹھ۔ تاجر۔ صنعت کار بھی دونوں ملکوں میں بزنس کررہے ہیں۔ امریکی ڈالر ہماری زندگیاں سب سے زیادہ اجیرن بناتا ہے۔ ہماری سبزیاں۔ چینی۔ گندم مہنگی کردیتا ہے۔ پیٹرول کی قیمتیں بڑھوادیتا ہے۔

دنیا کی کسی طاقت، کسی اصول کو خاطر میں نہ لانے والی سپر طاقت کورونا کے سامنے عجز کا شکار ہوگئی ہے۔ اب نئے صدر کی اولین ترجیح بھی صحتِ عامہ ہوگی۔ مگر حلف برداری سے پہلے بہت کچھ ہونے کا خدشہ ہے۔ میں تو گزشتہ چار سال میں بار بار سوچتا رہا ہوں کہ امریکیوں کی شامت اعمال نے ٹرمپ کی صورت اختیار کی۔ دنیا بھر میں خلفشار برپا رکھنے والا امریکہ ٹرمپ کے چار سال میں کیسی کیسی قیامتوں سے دوچار ہوا ہے۔ برسوں سے مسلسل جمہوریت کا تجربہ کرنے والے ۔دو سو سال سے اعلیٰ یونیورسٹیوں والے مہذب معاشرے میں ٹرمپ جیسا فسادی کیسے پیدا ہوگیا۔ پرورش پاتا رہا۔ اور اطلاعات ایجادات کی اکیسویں صدی میں ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے تک کیسے پہنچ گیا۔ تاریخ کے اسی اہم موڑ پر امریکی معاشرے کو ایسے جھگڑالو لیڈر کی ضرورت کیوں تھی۔ پھر بھی اس سسٹم کی پختگی ہے کہ اس نے یہ جھٹکے اور دھچکے برداشت کرلیے۔ اب یقیناً ایسی کتابیں اور دستاویزات آئیں گی جو ان چار سال کی ہنگامہ خیزیوں سے پردہ اٹھائیں گی۔

میں اپنے آپ سے سوال کررہا ہوں کہ تین دن بعد کیا امریکہ پہلے والا امریکہ بن جائے گا۔ جوبائیڈن امریکی تہذیب۔ سیاست اور سماج کو پہنچنے والے صدموں کو کتنی مدت میں دور کرسکیں گے۔ صحت کا نظام متاثر ہے۔ معیشت بد حال ہے۔ امریکہ کالے اور گورے میں تقسیم ہوچکا ہے۔

ہم پاکستانیوں کے لیے امریکہ میں یہ تبدیلی اس لیے اہم ہے کہ پاکستان امریکی پالیسی کا ایک اہم جزو رہا ہے۔ پاکستان جغرافیے کے ایک ایسے مقام پر موجود ہے کہ امریکہ کو 1947 سے ہی ہماری دوستی کی ضرورت رہی ہے۔ کمیونزم کے خلاف جنگ کے دَور میں کمیونسٹ روس اور کمیونسٹ چین سے ہماری سرحدیں ملتی تھیں۔ اسی لیے امریکہ کا ہم پر نظر رکھنا ضروری تھا۔ ہمارے ہاں سے وہ روس اور چین کی نگرانی کرسکتا تھا۔ پشاور میں بڈ ھ بیر کے فضائی اڈے میں پاکستان کا صدر بھی نہیں جاسکتا تھا۔ وہاں سے جاسوس طیارے کی پرواز کے بعد روسی صدر خروشیف نے دنیا کے نقشے پر پاکستان کے گرد سرخ دائرہ لگادیا تھا۔ بھارت نے روس کی آغوش میں جانے کا فیصلہ کیا تو ہماری وقعت دو چند ہوگئی۔ پھر سرد جنگ کے آخری دنوں میں افغانستان میں روسی فوجوں کی مداخلت نے بھی امریکہ کے لیے پاکستان کی اہمیت بڑھا دی۔ اسامہ بن لادن کی افغانستان میں موجودگی اور نائن الیون تو امریکہ کو ہمارے پڑوس میں لے آئے۔ اب تک وہ افغانستان میں موجود ہے۔ امریکہ کے لیے پاکستان کی ضرورت تاریخ کے ہر موڑ پر زیادہ ہوتی رہی۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے کبھی یہ باور نہ کیا۔ نہ کروایا کہ پاکستان کو امریکہ کی نہیں بلکہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت سب سے امیر ملک کے 73سالہ قریبی تعلقات اور ہر ضرورت کے وقت پاکستان کی خود سپردگی کے باوجود کروڑوں پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے کیوں ہیں۔ بے روزگاری ہمارے ہاں اتنی زیادہ کیوں ہے۔ قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ہماری یہ اقتصادی بد حالی۔ کیا اب تک کی ساری سیاسی اور فوجی حکومتوں کی بے تدبیری اور نا اہلی کی دلالت نہیں کرتی۔ کوئی ہے ان حکمرانوں سے پوچھنے والا۔ ان کے ذاتی مفادات تو پورے ہوتے رہے مگر ملک کے مفادات ہمیشہ خطرے میں رہے۔کیا اس کے ذمہ دار صرف حکمراں ہیں۔ کیا ہماری یونیورسٹیاں نہیں ہیں۔ ہمارا میڈیا نہیں ہے۔ ہمارے علما نہیں ہیں۔ یہ سب بھی امریکہ سے اپنے اپنے فائدے اٹھاتے رہے۔ ملکی مفادات کی پروا نہیں کی۔

اب بھی امریکہ اور پاکستان کی تاریخ کے اہم فیصلہ کن موڑ پر جب ایک نئے صدر کی حلف برداری ہورہی ہے تو کیا ہماری وزارت خارجہ۔ ہماری اپوزیشن یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکوں نے پاکستان کے عوام کو باخبرہونے کے لیے کوئی ترجیحات مرتب کی ہیں۔ کیا پاکستانیوں میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ پاکستان کو امریکہ کی نہیں بلکہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے اس لیے بھکاری بن کر نہیں بلکہ ایک با وقار قوم کی حیثیت سے اپنی شرائط منوانی چاہئیں۔

آئی جی پنجاب نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی، ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کاحکم دے دیا۔

لاہور میں شادی کی تقریب میں ہوائی فائرنگ نے بچی کی جان لے لی۔

زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی شدت 5.4 ریکارڈ کی گئی ہے

برطانیہ بھر میں 24 گھنٹوں میں کورونا سے 1 ہزار 295 افراد ہلاک ہوگئے

ٹرمپ حلف برداری تقریب میں شرکت نہیں کریں گے۔

خبر ایجنسی کے مطابق چین کی مقامی فوڈ کمپنی کے 4 ہزار 836 ڈبوں کے آلودہ ہونے کی نشاندہی کی گئی تھی جس میں سے 2 ہزار 89 ڈبوں کو سیل کر دیا گیا

واٹس ایپ نے یہ فیصلہ ڈیٹا شیئرنگ سے متعلق صارفین کے خدشات اور متبادل ایپس ’ٹیلی گرام ‘ اور ’سگنل‘ پر صارفین کے تیزی سے منتقل ہونے کے بعد کیا

ٹوبہ ٹیک سنگھ موٹروے ایم فور انٹرچینج کے نزدیک شدید دھند کے باعث کار ٹریلر سے ٹکرا گئی۔

تفتیشی حکام کے مطابق زین آفندی قتل کیس میں گرفتار ملزمان کا ریکارڈ پولیس نے حاصل کر لیا ہے ملزمان نے دوران تفتیش متعدد وارداتوں کا اعتراف کیا۔

54مسافر براستہ دوحہ آج رات 1 بجکر 40 منٹ پر وطن پہنچیں گے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی صحت ٹھیک ہونے کی تصدیق کردی ہے۔

محکمہ معدنیات کا کہنا ہے کہ حکومت کانکنوں کی حفاظت کیلئے نئی ایس او پیز بنا رہی ہے ،نئی ایس او پیز تک کچھ مائنز اونروں نے کوئلہ کانیں بند کردی ہیں۔

ادھر ڈی ایف او وائلڈ لائف کے مطابق بظاہر یہ واقعہ ایبٹ آباد کی حدود میں پیش آیا ہے

محکمہ صحت بلوچستان کی رپورٹ کے مطابق ہفتہ کو صوبے میں 668 افراد کے کورونا ٹیسٹ کئے گئے، ان ٹیسٹ کے نتیجے میں صوبے کے 5 اضلاع سے 32 نئے کیسز سامنے آئے۔

ڈی ایچ او ڈاکٹر محمد حسن کے مطابق الطاف کالونی میں پولیو ٹیم تین روزہ مہم میں رہ جانے والے بچوں کو قطرے پلانے گئی تھی جس پر اہل علاقہ نے خواتین کے ساتھ مل کر ٹیم پرحملہ کردیا

جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ نےپی ٹی آئی حکومت اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کو ناکام قرار دیدیا ہے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *