مسلمان دنیا سے غلامی کو رخصت ہوئے تقریباً ایک ہزار سال ہو چکا تھا۔ یہی نہیں بلکہ مسلمانوں نے غلاموں کی آزاد کرکے بلند ترین سماجی مقام پر فائز کرنے کی جو روایت چودہ سو سال پہلے قائم کی تھی، دنیا کے کسی معاشرے میں بھی اس کی مثال نہیںملتی۔ حضرتِ بلال ؓ کی وہ عزت و تکریم کہ دو عالمی طاقتوں کو شکست دینے والے عمر ابنِ خطابؓ انہیں سیدنا بلال (میرے آقا بلال) کہہ کر پکارتے تھے۔ ہندوستان میں خاندانِ غلاماں، ان غلام بادشاہوں پر مشتمل تھا جن کے آقاؤں نے یہ برصغیر فتح کیا اور پھر اس کی بادشاہت اپنے آزاد کردہ غلاموں کے سپرد کردی۔ دنیا کا کوئی مذہب، تہذیب یا تاریخ ایسی ایک مثال بھی پیش نہیں کر سکتی ۔ مسلمانوں میں تو حدیث و فقہ کے بڑے بڑے عالم ’’مولیٰ‘‘ یعنی آزاد کردہ غلام ہوگزرے ہیں۔ کسی علاقے میں اگر تھوڑی بہت غلامی کی نشانیاں موجود تھیں تو وہ بھی ایک ہزار سال پہلے مسلم معاشرے سے ختم ہوچکی تھیں۔اس کے برعکس یہ تو کل کی بات ہے کہ ، مارچ 1840ء کو امریکہ کے بڑے دریا ’’مسس سپی‘‘ کے ساحلوں پر آباد شہر نیو اور لبنز کے اخباروں میں یہ اشتہار چھپتا ہے اور شہر کی دیواروں پر بھی چسپاں کیا جاتا ہے Valuable Gang of young Negroes will be sold at auction on wednesday 25th.(نوجوان نیگرو کا قیمتی جتھہ بدھ 25تاریخ کو نیلام عام کیا جائے گا) یہ صرف ایک شہر کا اشتہار ہے ،جبکہ ایسی لاتعداد منڈیاں ہر امریکی شہر میں لگتی تھیں اور ہر شہر کی دیواریں اس طرح کے اشتہاروں سے رنگین ہوتی تھیں۔ غلاموں کی تجارت کرنے والوں میں انگلستان پہلے نمبر پر اور فرانس دوسرے نمبر پر تھا۔انگلستان، فرانس، سپین، اور دیگر نو آبادیاتی طاقتوں کا جرم ایک یہی نہیں ہے کہ انہوں نے افریقہ سے انسانوں کو جانوروں کی طرح جال لگا کر پکڑا، زنجیروں میں باندھا، جہازوں پر لادا اور دنیا کے بازاروںمیں بیچا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرا جرم یہ ہے کہ امریکہ اور آسٹریلیا کے براعظموں کی اصل مقامی آبادی کا اس حد تک قتلِ عام کیا کہ صرف چند صدیوںکی بربریت کی وجہ سے ان قوموں کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ یہ قتلِ عام جہاں ممکن ہوا ’’تلوار‘‘ یعنی براہِ راست قتل سے کیا گیا، لیکن وہ کمزور جو زیردست بن کر رہنے پر آمادہ ہو گئے انہیں قحط او ر بیماری سے ختم کیاگیا۔ریڈ انڈین کو مدتوں ایسے کمبل امداد میں دیئے جاتے تھے جن پر چیچک کے جراثیم لگے ہوتے تھے اوراس لاعلاج مرض میں مبتلا ہوکر لاکھوں موت کی آغوش میں چلے جاتے۔ آسٹریلیا میں مقامی افراد جنہیں ’’Aborignies‘‘کہتے ہیں، ان کی تو ایک صدی میں ایسی نسل کشی کی گئی کہ بیچارے اب تھوڑی سی تعداد میں ہی باقی ہیں۔ انگریزوں کا یہ عمومی کھیل تھا کہ مقامی لوگوں کے بچوں کے سروں کو ٹھڈوں سے نشانہ بنانے کی مشق کیا کرتے تھے جس سے وہ ذہنی معذور ہوجاتے۔ 1900ء سے 1975ء تک آسٹریلیا سے مقامی افراد کے بچوں کو زبردستی ان سے چھین لیا جاتا اور انگلستان لے جایا جاتا، وہاں انہیں یتیم خانوں اور ان کے لئے بنائے گئے اداروں میں رکھا جاتا اور پھر ان کی گوروں کے ساتھ جانوروں کی طرح افزائش نسل کروائی جاتی۔ اس کے پیچھے آسٹریلین پارلیمنٹ کا ایک قانون تھا کہ مقامی افراد کی نسل چونکہ تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے اور ان کی جینیاتی حالت(Genes) ایسی ہی کہ یہ اپنے اندر لمبی زندگی کی صلاحیت نہیں رکھتے، لہذاان کی نسل کو بچانے کے لئے انہیں کسی دوسری نسل کا پیوند لگا کر واپس آسڑیلیا لایا جائے۔ اس سارے عمل کو آج بھی ’’Stolen Genrations‘‘یعنی چرائی گئی نسلیں کہتے ہیں۔اس سب کے باوجود آسٹریلیا کی مقامی آبادی کی اوسط عمر آج بھی دنیا میںسب سے کم ہے۔
یہ براہ راست انفرادی غلامی تھی جو اب بحیثیت قوم اجتماعی غلامی میں بدل چکی ہے۔ اب کسی ایک فرد کو مزید غلام بنانے کی بجائے پوری قوم کو طاقت سے خوفزدہ کر کے اور قرضوں میں جکڑ کر غلام بنایا جاتا ہے۔ براہ راست غلاموں کی تجارت سے جدید مقروض غلامی تک آتے آتے اس تجارت نے کئی منزلیں طے کی ہیں۔ اس تبدیلی (Transection)کو سمجھنے کے لئے ایک ملک ’’ہیٹی ‘‘ کی کہانی بیان کرنا ضروری ہے۔ اس سے تغیر اور ہتھکنڈوں کی تبدیلی کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ 5دسمبر 1492ء کو کرسٹوفر کولمبس نے ان جزیروں کے جھرمٹ پر سپین کا پرچم لہرایا جسے آج ’’جزائر غرب الہند‘‘ (Caribbean Sea)کہا جاتا ہے۔ ان جزائر میں زراعت کی دولت سے مالا مال جزیرہ ہیٹی بھی تھا۔ کچھ عرصے بعد انگریز، ولندیزی اور فرانسیسی بحری قزاق اور لٹیرے ہیٹی کے ساحلوں پر آباد ہونا شروع ہوئے اور پھر1711ء میں فرانس نے اسے اپنی کالونی بنالیا۔ جزیرے سے مقامی آبادی کا مکمل خاتمہ کیا جاچکا تھا، اس لئے زراعت کے لئے افریقہ سے غلاموں کو پکڑ کر وہاں لاکر آباد کیا گیا۔ جزیرے پر تقریباً چار لاکھ پچاس ہزار افریقی غلام آباد تھے اور ایک لاکھ فرانسیسی نسل کے لوگ۔ فرانس کی غلامی میں آنے کے وقت، یہ جزیرہ دنیا کا تین چوتھائی گنا پیدا کررہا تھا اور کافی کی بہت بڑی پیداوار بھی یہاں ہوتی تھی۔ زراعت کے علاوہ یہاں سے دنیا بھر کے ایک تہائی غلام لے جاکر عالمی مارکیٹوں میںبیچے جاتے تھے۔ اس تجارت کی وجہ سے’’ ہیٹی‘‘ سیاہ فام لوگوں کے لیئے یہ ایک خوفناک ٹھکانہ تھا۔ کوئی سیاہ فام کہیں اکیلے جارہا ہوتا، چند گورے اسے اٹھا کر لے جاتے اور کسی دوسرے ملک میں جا کر بیچ دیتے۔ فرانس میں انقلاب آیا تو یہاں کے سیاہ فام لوگوں نے سمجھا کہ اب شاید دنیا تبدیل ہو چکی ہے۔ انہوں نے فرانس کی فوج میں ایک سیاہ فام ملازم ’’توساں ہیٹی‘‘(Toussaint Haiti)کی قیادت میں مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور 1804ء میں آزادی حاصل کر لی۔ فرانس اب بادشاہت کی بجائے ایک’’ جمہوری‘‘، ’’انقلابی‘‘ اور ’’جدید سیکولر‘‘ ریاست بن چکا تھا۔ اس سیکولر فرانس نے اپنی بحری افواج کو ہیٹی کے ساحلوں پر اتارا اورآزاد ملک کی حکومت سے مذاکرات شروع کئے۔ فرانس کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ ہم تم پر حملہ کر کے تمہیں دوبارہ غلام بنا لیں گے، اس لئے تم اگر آزاد رہنا چاہتے ہو تو ہمیں اپنی ’’آزادی کا تاوان‘‘ادا کرو۔ یہ اصطلاح انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ پیش کی گئی۔فرانسیسیوں نے کہا کہ اس ملک کے چار لاکھ پچاس ہزار غلام ہماری ملکیت (Asset) تھے جن پر تم لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ ایک راستہ تو یہ کہ ہم تم پر حملہ کر کے اپنے ’’اثاثے‘‘ واپس لے لیںیعنی تمہیں پھر سے غلام بنا لیں، جبکہ دوسری صورت یہ ہے کہ تم ان اثاثوں کی قیمت ادا کرو۔مذاکرات میں غلاموں کی کل قیمت 21ارب ڈالر طے ہوئی، جسے ہیٹی نے مرحلہ وار ادا کرنا تھا۔ اس کا طریقہ کار یہ طے ہوا کہ جزیرہ ہیٹی میں جو کچھ بھی پیدا ہوگا، یا جو بھی معدنیات نکالی جائیں گی اس کا پچاس فیصد فرانس کی ملکیت ہوگا۔ یہ سب تاوان براہِ راست فرانسیسی حکومت کے اہلکار وصول نہیں کرتے تھے بلکہ جدید معاشی استحصال کے سب سے بڑے نمائندے ’’بینک ‘‘وصول کرتے تھے۔ ان میں فرانسیسی بینکوں کے علاوہ ایک نیا کھلنے والا امریکی ’’سٹی بینک‘‘ بھی شامل تھا۔ہیٹی کے عوام کو ڈیڑھ سو سال لگے ،ان 21ارب ڈالروں کو ادا کرنے میں۔ ’’آزادی کے تاوان‘‘ کی قسطوں میں ادائیگی 1947ء میں مکمل ہوئی۔ اس کے بعد بھی عالمی طاقتوں کی بھوک نہ مٹی اور اس کے وسائل کو لوٹنے کے لئے آج تک اس ملک کو سازشوں کا گڑھ بنا کر رکھا ہوا ہے۔ ہیٹی آج بدیانت ترین ممالک میں سے ایک ہے، یہاں منشیات سے لے کر ہر غیر قانونی چیز کادھندہ ہوتا ہے اور اس کی اشرافیہ کو مختلف حربوں سے بدیانت بنا دیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وسائل سے مالا مال ملک آج بھی دو ارب ڈالر کا مقروض ہے۔
ہیٹی کی طرح پوری دنیا کی غریب اقوام اجتماعی طور پراپنی ’’آزادی کا تاوان‘‘ ادا کر رہی ہیں۔ انہیں سودی قرضوں کی دلدل میں ایسا جکڑا گیا ہے کہ بغاوت کرنے والے کو دہشت گردوں کا سہولت کار بتا کر اس کا اوّل توفیٹف کی طرز کے قوانین کے ذریعے معاشی قتل کیا جاتا ہے،اس کی بددیانت قیادتوں کے ذریعے ملک کے اثاثے قبضے میں لئے جاتے ہیں اور اگر ایماندار قیادتیں ایسا نہ کریں تو پھراس ملک میں فوجیں اتار دی جاتی ہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *