بھٹو ، ضیا اور ایم کیو ایم

بریگیڈئر(ر) صولت رضا آج کل قومی اخبارات میں کالم نگاری کر رہے ہیں، ان کے کالموں کا مجموعہ ’’غیر فوجی کالم ‘‘شائع ہوچکا ہے، پچھلے دنوں اس پر چند ایک ریویوز بھی چھپے۔، صولت رضا صاحب کی ایک کتاب ’’کاکولیات‘‘کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوئے۔یہ کاکول اکیڈمی میں گزرے دنوں کی دلچسپ روداد ہے۔ ان دونوں کتابوں پر پھر کبھی بات کریں گے۔ آج ان کے بہت دلچسپ ، تفصیلی انٹرویو پر بات کرنی ہے جو چند دن قبل مجیب الرحمن شامی صاحب کے جریدے ماہانہ قومی ڈائجسٹ (جنوری 2021) میں شائع ہوا۔ محنتی اور مستقل مزاج لکھاری عبدالستار اعوان نے یہ انٹرویو کیا۔ متن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک سے زائد نشستوں میں گفتگو ہوئی، اسے کمال مہارت سے عبدالستار اعوان نے منتقل کیا۔ اس سے قبل بھی انہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی کئی شخصیات کے جامع انٹرویوپیش کئے۔
بریگیڈئر صولت رضا کی تمام سروس پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ’’ آئی ایس پی آر‘‘ میں گزری ، وہ بطور لیفٹیننٹ آئی ایس پی آر کا حصہ بنے اور بریگیڈئر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔اپنی سروس کے دوران انہیں لاہور، کراچی،کوئٹہ اور پھر پنڈی جیسے اہم سٹیشنوں پر ذمہ داری نبھانے کا موقعہ ملا۔ اپنے طویل انٹرویو میں انہوں نے بہت دلچسپ یاداشتیں شیئر کیں۔بریگیڈئر صولت رضا سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی، ان کے اخباری کالم البتہ دیکھتا رہا ہوں۔
عبدالستار اعوان کے انٹرویو میں دلچسپی سے پڑھتا ہوں کہ میگزین صحافت میں اتنے تفصیلی ، پہلو دار انٹرویو کا رجحان ختم ہو رہاہے۔جناب الطاف حسن قریشی نے ایسے طویل تفصیلی انٹرویوز کی طرح ڈالی تھی،وہ اس صنف میں امام کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی ایک کتاب شائع ہوچکی ہے، مزید کئی کتابیںزیر طبع ہیں۔منیر احمد منیر کے طویل ترین انٹرویو کتابی شکل میں شائع ہو کر تہلکہ مچاتے رہے۔رائو رشید کے انٹرویو والی کتاب کے کئی ایڈیشن نکل چکے۔ منیر صاحب کا بڑا مختلف سٹائل تھا، وہ انٹرویو کو لفظ بہ لفظ نقل کرتے تھے، الطاف قریشی صاحب مفہوم پر سمجھوتہ نہ کرتے مگر وہ کئی سوالات کے جواب کو اکٹھا کر کے قاری کی آسانی کے لئے عام فہم اور رواں بنا لیتے ۔ سینئر صحافی اظہر منیر نے قریشی صاحب کے سٹائل کے ردعمل میں بالکل مختلف سٹائل اپنایا، منیر احمد منیر کی طرح۔ انہوں نے مجید نظامی اور عطا الحق قاسمی صاحب کے طویل انٹرویو کئے جو کتابی صورت میں چھپے ۔ سہیل وڑائچ صاحب طویل عرصہ اپنے اخبار کے سنڈے میگزین کے لئے بڑے جانداراور بھرپورانٹرویوکرتے رہے۔ انہوں نے بعد میں علماکرام، ریٹائرجرنیلوں، قوم پرست رہنمائوں اور ججوں کے انٹرویوز کو الگ الگ چار کتابوں میں شائع کیا۔کیا شاندار انٹرویوز ہیں ۔ میں اکثر نوجوان صحافیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ ریفرنس کے لئے یہ کتابیں اپنے پاس رکھا کریں۔ جب خاکسار کوبطور میگزین انچارج اور میگزین ایڈیٹر ذمہ داری ملی تو اپنی بساط کے مطابق کچھ انٹرویو کئے تھے۔ان انٹرویوز پر مبنی کتاب جلد شائع ہونے والی ہے۔مختلف اخبارات کے کلر ایڈیشن اور سنڈے میگزین کے لئے کرامت علی بھٹی ، محمود الحسن ،ظہیر احمد بابر، علی عباس نے لاہورجبکہ اقبال خورشید،توقیر چغتائی، رانا آصف نے کراچی اور احمد اعجاز نے اسلام آباد سے بڑے اچھے انٹرویو کئے۔ پچھلے پندرہ برسوں میں کام کرنے والے یہ چندنمایاں نام فوری ذہن میں آئے، ممکن ہے ایک آدھ چوک بھی گیا ہو۔ کرامت علی بھٹی نے انٹرویوز کی ایک خاص صنف پروفائل میں زیادہ کام کیا، ان پر مبنی کتاب بھی شائع ہوئی ۔ اقبال خورشید اور محمود الحسن نے بڑے کمال انٹرویو کئے، مگرابھی تک انہیں کتابی شکل نہیں دی۔
ایک زمانے میں مظفر محمد علی نے رحمت علی رازی کے جریدے عزم کے لئے بہت دلچسپ انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ افسوس کہ مظفر صاحب اور رازی صاحب دونوں اب مرحوم ہوچکے ہیں۔ مظفر محمد علی کے ان انٹرویوز کو ان کے داماد اور ہمارے دوست اجمل شاہ دین نے کتابی صورت میں شائع کیا، ’’راز دان صحافی ‘‘کے نام سے یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بریگیڈئر (ر)صولت رضا کے انٹرویو کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔یہ انٹرویو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، ایک خاص زاویے سے چالیس پینتالیس سال کا پورا سفر دیکھنے، سمجھنے کو ملتا ہے ۔جنرل ضیا الحق کے حوالے سے ان کے مشاہدات دلچسپ ہیں۔ ہمارے ہاں جنرل ضیا کا امیج آج کل بہت منفی ہے اور میڈیا، سوشل میڈیا پر ضیا الحق کے بارے میں ایک سطر بھی مثبت لکھنا مشکل ہوگئی ہے۔ میری اپنی رائے بھی زیادہ اچھی نہیں۔ برگیڈیر صولت رضا کی رائے البتہ مختلف ہے۔اٹک سازش کیس کے ٹرائل کے دنوںمیںمیجر جنرل ضیا الحق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے سربراہ تھے،انہی دنوںلیفٹننٹ صولت رضا کو انہوں نے کوئی کام بتایا جسے بخوبی احسن طریقے سے کر دیا گیا۔ کئی سال بعد جنرل ضیا بطور آرمی چیف پہلی بار کوئٹہ آئے تو وہاںسینئر افسروں کے جھرمٹ میں کھڑے کیپٹن صولت رضا کو دیکھ کر فورا پہچان گئے اور بڑے تپاک سے ملے۔سب حیران تھے کہ آرمی چیف ایک اتنے جونیئر افسر کو اتنی توجہ کیوں دے رہا ہے۔ چیف کی اس توجہ کی وجہ سے نوجوان افسر کے دفتر میں قالین اور دیگر سہولتوں کا فوری اضافہ ہوگیا۔صولت رضانے جنرل ضیا الحق کی سادگی اور کسی معقول مشورے کو بلا حیل وحجت مان لینے کے واقعات بتائے ۔
وہ کہتے ہیں :’’یہ حقیقت ہے کہ جنرل ضیا الحق مارشل لاء حکمران ہونے کے باوجودکافی حد تک آزادی اظہار برداشت کرتے تھے۔ اخبارات اور کتب کا مطالعہ ان کی عادت ثانیہ تھا۔یوں ان میں ایک بااخلاق سامع کی تمام خصوصیات موجود تھیں۔انہوں نے اپنے دور حکومت میں عسکری، سیاسی، ابلاغی محاذ پر منفرد کارنامے انجام دئیے جنہیں محض مارشل لا حکومت کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔بدقسمتی سے سانحہ بہاولپور کے بعد جنرل ضیا الحق کے غیر سیاسی کارنامے پس پشت چلے گئے۔میاں نواز شریف نے جنرل ضیا الحق کے سیاسی ورثے کو اپناتے ہوئے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔یہ اور بات کہ نواز شریف نے کچھ عرصے سے دیگر آرمی چیفس کے ساتھ اپنے مربی محسن کو بھی آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا ہے۔ ‘‘
صولت رضا کے بقول ،’’بیرونی محاذ پر بھارت جنرل محمد ضیا الحق سے سب سے زیادہ خائف تھا، شائد ان کے پاس پاک افواج کی تیاری کے حوالے سے رپورٹس موجود ہوں۔ افغانستان میں روس کی شکست کے بعد بھارت کو خدشہ تھا کہ اب’’ تربیت یافتہ ‘‘مسلمان جتھے کشمیر سمیت متعدد ریاستوں کو آزاد کرائیں گے یا کم از کم بھارت کے زیر اثر نہیں رہنے دیں گے،بنگلہ دیش میں بھی اس حوالے سے خوش آئند سیاسی اور عسکری تبدیلیاں آ رہی تھیں۔جنرل ضیا الحق خطے کی صورتحال کا مکمل ادراک رکھتے تھے۔ جنرل ضیا الحق نے آرمی کی متعدد تربیتی مشقوں معائنہ کے بعد افسروں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں یہ کہا ،’’ہم نے سقوط ڈھاکہ کا بدلہ لینا ہے ،آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوںیہ ہو کر رہے گا۔بھارت کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا جو اس نے ہمارے ساتھ مشرقی پاکستان میں کیا۔‘‘
صولت رضا کے خیال میں ضیا الحق کی قومی خدمات کو محض ’’مارشل لا ئ‘‘ حکمران کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔تاہم انہوں نے ایک اور دلچسپ واقعہ سنایا جو بھٹو صاحب کی افتاد طبع کو بتانے کے ساتھ ضیا الحق کے بارے میں بھی منفی تاثر قائم کرتا ہے۔ صولت رضا ان دنوں کوئٹہ میں کیپٹن تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب بطور وزیراعظم کوئٹہ دورے پر آئے، آرمی چیف ضیا الحق اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جنرل ریٹائر ٹکا خان بھی ہمراہ تھے، کوئٹہ میس میں ان کے اعزاز میں لنچ تھا، جس میں گریژن کے کچھ اور افسر بھی تھے۔ لنچ کی باضابطہ کارروائی سے پہلے بھٹو صاحب کے گرد جوان افسر گھیرا ڈالے ان کی گفتگو سن رہے تھے ، اتنے میں بھٹو کے ملازم نے ان کا پسندیدہ مشروب ان کے سامنے رکھ دیا۔ کسی نے آواز لگائی کہ آرمی میس میں یہ مشروب نوش جاں کرنے پر پابندی ہے، بھٹو صاحب کی گرج سنائی دی،’’ویئر از ضیا؟‘‘ضیاالحق کچھ فاصلے پر کسی اور مہمان سے بات کر رہے تھے، وہ فوری لپک کر آئے۔بھٹو نے میس میں پابندی کے بارے میں پوچھا تو ضیا نے بتایا کہ یہ پابندی سابق آرمی چیف جنرل ٹکا خان کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ بھٹو صاحب نے اپنا گلاس لہراتے ہوئے کہا،’’مگر میں تو پی رہا ہوں۔‘‘اس پر ضیا الحق نے ’’تاریخی‘‘ جملہ کہا، سر آپ قانون سے بالاتر ہیں(Sir You are above the law.)۔ یہ جملہ سن کر بھٹو پھولے نہ سما رہے تھے، سب نے قہقہہ لگایا اور بات آئی گئی ہوگی۔ صولت رضا نے اس کے بعد ایک خوبصورت فکرانگیز جملہ کہا:’’بڑے عہدوں پر متمکن شخصیات کی گفتگو، بدن بولی اور نشست وبرخاست میں خیر اور شر کے پہلو موجود رہتے ہیں، دیکھنے اور سننے والوں کے لئے نصیحت ،و صیت اور عبرت کا سامان ۔ کاش بروقت غور کر لیا جائے۔‘‘
کالم کی گنجائش ختم ہوئی، ایم کیو ایم اور ان کے خلاف کئے جانے والے آپریشن کا ذکر رہ گیا۔ اگلی کسی نشست میں اس کی تفصیل بھی ا ن شااللہ آئے گی۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *