مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو

رات سی این این لگایا تو امریکی ایوان نمائندگان میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی لائیو دکھائی جا رہی تھی سوچا ایک آدھ گھنٹے میں تقریریں ختم اور ووٹنگ شروع ہو جائیگی ‘دیکھیں تقریروں کا انداز کیا ہے؟ سپیکر نینسی پلوسی ڈیمو کریٹ اور ری پبلکن پارٹی کے نمائندوں کو اظہار خیال کے لئے بیس‘ تیس سکینڈ اور زیادہ سے زیادہ ایک منٹ کا وقت دے رہی تھیں مگر یہ بحث شیطان کی آنت کی طرح پھیلتی چلی گئی اور رات اڑھائی بجے کہیں جا کر مواخذے کے خلاف اورحق میں پڑنے والے الیکٹرانک ووٹوں کی گنتی مکمل ہوئی‘ مواخذے کے حق میں قرار داد کی حمائت کرنے والے ڈیمو کریٹ اور دس ری پبلکن ارکان 6جنوری کو دارالحکومت واشنگٹن اور کانگریس کی عمارت پر ہلّہ بولنے والے بلوائیوں کو قصور وار قرار دینے کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ کو اس بلوے کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے اور اگلے سات روز تک صدر رہنے والے ٹرمپ کے یہ کہہ کر لتّے لئے جا رہے تھے کہ دوسو سالہ امریکی تاریخ میں کسی صدر نے انتخابی نتائج کو اس بھونڈے طریقے سے چیلنج کیا‘ نہ اپنے حامیوں کو دارالحکومت اور کانگریس کی بلڈنگ پر بلوے کے لئے اکسایا اور نہ حملہ ہو جانے کے بعد اظہار ندامت سے انکار کیا‘ لیکن مواخذے کے مخالف اور ٹرمپ کے حامی بھی حملے کا دفاع کر رہے تھے نہ بلوائیوں کی مذمت میں تردد و بذبذب کا شکار‘ حامی اور مخالف دونوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ سپر پاور امریکہ کا صدر قانون سے بالاتر ہے نہ احتساب اور مواخذے سے مستثنیٰ‘ اگر صدر نے کچھ غلط کیا ہے تو وہ قانون کے سامنے جوابدہ ہے اور غلط کاری پر سزا کا مستحق‘ حامیوں کو مواخذے پر اعتراض یہ تھا کہ تحقیقاتی کمیٹی نے کانگریس پر بلوے میں صدر کے براہ راست ملوث ہونے کی ٹھوس اور ناقابل تردید شہادت پیش کی ہے نہ انتقال اقتدار سے محض ایک ہفتہ قبل صدر کو برطرف کرنے کا کوئی دوسرا جواز ایوان کے سامنے موجود ہے‘ ڈیمو کریٹک حکمرانوں نے اس طرح صدر کو بے عزت کر کے نکالنے کی رسم ڈالی تو آئندہر صدر اس انتقامی ذہنیت کا نشانہ بنے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
صدارتی انتخابات سے مواخذے کی کارروائی تک امریکی عوام‘ منتخب نمائندوں اور اداروں نے دنیا کو حکمرانی‘ جمہوریت اور آزادی اظہار کے نئے قرینوں سے متعارف کرایا ہے جس پر ہمیں بحیثیت قوم اور سیاست و صحافت سے وابستہ عقل و دانش کے اجارہ داروں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کا لفظ تو ہر زبان پر رہتا ہے مگر ان دونوں کے حقیقی مفہوم اور اجزائے ترکیبی سے شناسائی؟ ریاست و حکومت کو ہم بالعموم گڈ مڈ کرتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ و فوج میں فرق روا نہیں رکھتے‘ حالانکہ ریاست کے اجزائے ترکیبی میں حکومت محض ایک جزو ہے‘ کُل نہیں اور اسٹیبلشمنٹ جن عناصر کا مجموعہ ہے فوج ان میں سے ایک عنصر ہے یا زیادہ سے زیادہ غالب عنصر بذات خود اسٹیبلشمنٹ نہیں‘ جنرل پرویز مشرف اور جسٹس افتخار چودھری کی لڑائی میں اسٹیبلشمنٹ اگر پرویز مشرف کا ساتھ نہ چھوڑتی تو جسٹس سعید الزمان صدیقی کی طرح افتخار چودھری بھی پی سی او کی تاریخ کی بھولا بسریٰ باب ہوتے ‘آصف علی زرداری دور میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی جس پر غور کرنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کی گئی۔ چار سال قبل ٹرمپ جس ڈیپ سٹیٹ اور اسٹیبلشمنٹ کے سینے پر مونگ دل کر اقتدار میں آئے تھے وہ صہیونیوں اور اسرائیل کی ناز برداری کے باوجود ٹرمپ سے خوش نہ تھی اور ٹرمپ کو اپنے عجلت پسندانہ مزاج‘ آمرانہ و جارحانہ انداز فکر اور متعصبانہ نظریات کی بنا پر ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کے لئے خطرہ تصور کرتی تھی‘ حالیہ انتخابات میں پاپولر ووٹ لینے کے بعد ٹرمپ ‘ریاست کے پائیدار ستونوں کے لئے ایک نئے خطرے کی صورت میں ابھرے ‘یہ خدشہ محسوس کیا گیا کہ ایوان صدر سے نکلنے کے بعد بھی ٹرمپ نچلے بیٹھنے والا نہیں اور ابھی سے اگلے الیکشن کی تیاری کرے گا‘ چنانچہ میری دانست میں مواخذے کے ذریعے مستقل راستہ بند کیا جا رہا ہے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘ لیکن یہ الگ موضوع ہے مواخذے کی تحریک کے دوران ثابت ہوا کہ حقیقی جمہوری نظام میں ریاست کے مفاد کے سامنے فرد کی کوئی حیثیت نہیں‘ دس ری پبلکن ارکان نے اپنے صدر کے مقابل ریاست کے مفاد کو ترجیح دی مواخذے کے حق میں علی الاعلان ووٹ ڈالا کسی نے لوٹا قرار دیا نہ بے وفائی کا طعنہ کسا‘ ٹرمپ کو بھی جرات نہ ہوئی کہ وہ سڑکوں پر نکل کر ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا راگ الاپے اور کانگریس کو بلیک میل کر سکے۔ ٹرمپ ری پبلکن گورنروں کو قائل کرتا رہا کہ دھاندلی کا الزام لگا کر وہ انتخابی عمل کو مشکوک بنائیں مگر کسی نے صدر یا پارٹی کی وفاداری کے جوش میں اس غیر اخلاقی عمل کی تائید نہیں کی۔
ٹوئٹر اور فیس بک نے صدر ٹرمپ کے
اکائونٹ بند کر دیے‘ یوٹیوب نے ٹرمپ کے ٹی وی پر پابندی عائد کر دی کہ جناب صدر سماجی رابطوں کے ان ذرائع کو جمہوریت و ریاست کے مفادات کے منافی پراپیگنڈے ‘حقائق کی بیخ کنی اور غلط اطلاعات کی تشہیر کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ مگر کسی نے آزادی اظہار کے نام پر ٹوئٹر‘ فیس بک اور یو ٹیوب کی مذمت کی ‘نہ کسی عدالت میں یہ پٹیشن لے کر گیا کہ آزادی اظہار کے بنیادی انسانی حق کے منافی اس فیصلے کو واپس لیا جائے۔ پرجوش حامیوں نے ٹرمپ کی خوشنودی کے لئے کیپٹل ہل پر حملہ کیا مگر جناب صدر اور ان کے حامی ارکان ان بلوائیوں کو فسادی قرار دے کر سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ تمغہ جمہوریت عطا کرنے کا اعلان نہیں‘ پاکستان میں مگر جمہوریت اور آزادی اظہار کے علمبرداروں کا طرز عمل بالکل برعکس ہے‘ اپنے ذاتی‘ خاندانی اور سیاسی مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دینے ولے لیڈران کرام کے ہر غیر قانونی‘ غیر جمہوری‘ غیر اخلاقی ‘غیر انسانی فیصلے اور اقدام کی اندھا دھند تائید و حمائت اور دفاع سیاسی وفاداری کے نام پر کارثواب اور تقاضائے جمہوریت ہے۔ لیڈر خواہ ملک دشمنی پر اتر آئے یا سیاسی خودکشی کا مرتکب ہو ‘اس کے عاقبت نااندیشانہ طرز عمل اور فیصلے سے انحراف ناقابل معافی جرم ہے اور نظرثانی کا تقاضا‘ غیر جمہوری اقدام‘ حکومت‘ عدالت یا پیمرا اگر الطاف حسین جیسے کسی باغی ‘کرپشن کے الزام میں سزا یافتہ سرکش کی تقریریں نشر کرنے پر پابندی عائد کرے تو ہم کمال ڈھٹائی سے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور آزادی اظہار کے مجاہد کہلانے کے شوق میں داد رسی کے طلب گار ہوتے ہیں‘ ہرگز نہیں سوچتے کہ ‘ عوام ‘سیاسی کارکنوں اور دفاع وطن کا مقدس فریضہ انجام دینے والے سپاہیوں کو بغاوت پر اکسانے والی ان تقریروں کے نتیجے میں فساد برپا ہوا‘ وطن عزیز لیبیا‘ عراق کی طرح خانہ جنگی کی نذر ہو گیا تو ذمہ دار کون ہو گا؟ ریاست اور اسٹیبلشمنٹ نے پاپولر ووٹ لینے والے بااختیار و طاقتور امریکی صدر کی ایک نہیں چلنے دی اسے مواخذے کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا مگر ہم ہر قابل مواخذہ شخص کو معصوم و مظلوم ثابت کر کے ریاست کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں‘ چند افراد ریاست سے بالاتر ہیں اور چند خاندان جمہوریت کا نعم البدل۔
امریکی ایوان نمائندگان میں مواخذے کی کارروائی دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا‘اُمید ہم امریکہ اور برطانیہ جیسی خالص اور حقیقی جمہوریت کی رکھتے ہیں۔ طرز عمل ہمارا افغانستان کے وار لاڈرز کا ہے ‘کسی اصول اور قانون کے پابند نہ ملک و قوم کے اجتماعی مفاد سے غرض:
مجھ سا کوئی جہان میںنادان بھی نہ ہو
کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *