آپ بجلی کے تازہ ترین بریک ڈاؤن کو سمجھنے کے لیے گاڑی کی مثال لیں‘ گاڑی کو انجن چلاتا ہے لیکن ہم انجن کو اسٹارٹ کرنے کے لیے اسے بیٹری کے ذریعے کرنٹ دیتے ہیں‘ بیٹری کا کرنٹ انجن کو اسٹارٹ کر دیتا ہے اور انجن اسٹارٹ ہو کر گاڑی چلا دیتا ہے‘ آپ اب فرض کیجیے انجن راستے میں بند ہو جاتا ہے تو ہم کیا کریں گے؟ ہم انجن کو بیٹری کے ذریعے ایک بار پھر کرنٹ دیں گے اور اس وقت تک کرنٹ دیتے رہیں گے جب تک انجن اسٹارٹ نہیں ہوجاتا‘ دنیا بھر کے پاور پلانٹس بھی اسی فارمولے کے تحت چلتے ہیں۔

بجلی کے بڑے پلانٹس کو چلانے کے لیے پہلے انھیں چھوٹے پلانٹس کے ذریعے کرنٹ دیا جاتا ہے اور یہ اگر کبھی خدانخواستہ بند ہو جائیں تو پھر انھیں دوبارہ چھوٹے پلانٹس کے ذریعے ری اسٹارٹ کیا جاتا ہے‘ ری اسٹارٹ کرنے کے اس پراسیس کو ٹیکنیکل زبان میں ’’بلیک اسٹارٹ‘‘ کہتے ہیں‘ پوری دنیا میں پاور پلانٹس کے ساتھ ’’بلیک اسٹارٹ سسٹم‘‘ ضروری ہوتا ہے لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے یہ سسٹم موجود نہیں چناں چہ یہاں جب بھی پاور پلانٹس بند ہوتے ہیں تو بجلی کی بحالی میں دو تین دن لگ جاتے ہیں‘ اب سوال یہ ہے پاکستان میں بلیک اسٹارٹ کیوں نہیں ہے؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔

ہمارے پاس دس ہزار میگا واٹ سے زائد پن بجلی ہے‘ یہ سسٹم میں ہر وقت موجود رہتی ہے چناں چہ ہمارا خیال تھا ہمارے پلانٹس اگر بند ہو جائیں گے تو ہم ڈیموں کی بجلی سے انھیں ’’ری اسٹارٹ‘‘ کر لیں گے‘ دوسرا پاکستان تیسری دنیا کا غریب ملک ہے‘ ہم امریکا یا یورپ نہیں ہیں جہاں ہر چیز کا بیک اپ ہونا چاہیے‘ پاکستان میں اگر بجلی چلی بھی جائے تو یہ دس پندرہ گھنٹوں میں بحال ہو جائے گی‘ کیا قیامت آ جائے گی لہٰذا ہم نے یہ سوچ کر کوئی متبادل نظام نہیں بنایا تھا چناں چہ 9جنوری کی رات گدو پاور پلانٹ میں خرابی ہوئی اور پاور پلانٹ بند ہو گیا‘یہ ہمارے بجلی کے نظام کے لیے بڑا جھٹکا تھا‘ ملک کے دوسرے پاور پلانٹس یہ بوجھ برداشت نہ کر سکے۔

لہٰذا یہ بھی بند ہو گئے اور یوں پورے ملک میں بریک ڈاؤن ہو گیا‘ کراچی سے لے کر خیبر تک ہر طرف اندھیرا چھا گیا‘ سسٹم میں ’’بلیک اسٹارٹ‘‘ کی سہولت موجود نہیں تھی لہٰذا پاور پلانٹس ری اسٹارٹ نہ ہو سکے‘ یہ ایک ایکسیڈنٹ تھا‘ دنیا میں ایسے حادثے ہوتے رہتے ہیں‘ امریکا‘ برطانیہ اور جرمنی جیسے ملکوں میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں‘ یہ قابل معافی تھا لیکن بریک ڈاؤن کے بعد جو کچھ ہوا وہ ناقابل معافی تھا‘ ملک میں 45 منٹ تک حکومت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا‘ صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ساتھ تمام وزراء بھی غائب ہو گئے تھے۔

بریک ڈاؤن کیوں ہوا‘ فالٹ کہاں آیا اور یہ کیسے ٹھیک ہو گا؟ قوم کو یہ بتانے کے لیے کوئی شخص موجود نہیں تھا‘ یہ پہلے ڈیزاسٹر سے بڑا ڈیزاسٹر تھا اور اس ڈیزاسٹر نے پوری دنیا کو بتا دیا ہمارے ملک میں پاور پلانٹس کے ساتھ ساتھ حکومت کا بھی کوئی بلیک اسٹارٹ سسٹم موجود نہیں ہے لہٰذا یہ ملک ایمرجنسی کی صورت میں سیدھا سادا اللہ کے آسرے پرشفٹ ہو جاتا ہے اور ہمارے پاس اللہ کے علاوہ کوئی ری اسٹارٹ نہیں بچتا۔

یہ ایک انتہائی سنجیدہ نااہلی تھی چناں چہ ’’ریاست‘‘ نے پہلی بار اس سنجیدہ نااہلی کا نوٹس لیا اور 11 جنوری کو وزیراعظم ہاؤس کے لان میں دھوپ تاپتے ہوئے وزیراعظم کو جا کر بتایا گیا’’ ملک اس طرح نہیں چل سکے گا‘ آپ کو ہاتھ میں ڈنڈا اٹھانا پڑے گا‘ وزیروں کو رگڑا لگانا ہو گا‘‘ وزیراعظم کو بھی صورت حال کی سنگینی کا اندازہ تھا‘ 12 جنوری کو کابینہ کا اجلاس تھا‘ وزیراعظم اس دن پہلی بار پوری طرح وزیراعظم نظر آئے‘ یہ پھٹ پڑے اور انھوں نے وزراء کو تیر کی طرح سیدھا کر دیا‘ وزیراعظم سب سے پہلے اپنے ایک مشیر اور ایک سینئر خاتون وزیر پر برسے‘ یہ دونوں سانحہ مچھ پر ٹویٹس کرتے رہے تھے۔

وزیراعظم نے ان سے کہا ’’آپ کو اگر حکومت کے رویے پر اعتراض ہے تو پھر آپ کابینہ چھوڑ دیں‘‘ یہ دونوں چپ چاپ دائیں بائیں دیکھنے لگے‘ اس کے بعد توانائی کے وزیر عمر ایوب کی باری آ گئی‘ ان کے پاس بھی ’’بریک ڈاؤن‘‘ کی کوئی ٹھوس وجہ موجود نہیں تھی‘ یہ بھی وزیراعظم کے غصے کا مقابلہ نہ کر سکے‘ حماد اظہر سے مہنگائی کے بارے میں پوچھا گیا‘ چینی کی قیمتیں کیوں زیادہ ہو رہی ہیں‘ گندم کے اسٹاک کیوں پورے نہیں ہیں۔

کوکنگ آئل کیوں مہنگا ہے اور سبزی‘ دالیں‘ انڈے اور مرغی کیوں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے؟ یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے لیکن یہ بھی وزیراعظم کو مطمئن نہ کر سکے‘ پٹرولیم کے معاون خصوصی ندیم بابر پچھلی دو تین کابینہ میٹنگز میں نشانہ بنتے چلے آرہے تھے‘ کابینہ کے پچھلے اجلاس میں انھیں شاہ محمود قریشی نے یہ تک کہہ دیا تھا ’’حکومت کے لیے اصل خطرہ پی ڈی ایم نہیں معاون خصوصی برائے پٹرولیم ہیں‘‘ یہ اس بار بھی بریک ڈاؤن کی وجہ سے ڈاؤن بیٹھے تھے۔

کابینہ کے لیے سب سے بڑا ایشو تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ 16 نومبر 2020ء کا حکومتی معاہدہ تھا‘ حکومت نے دھرنا ختم کرنے کے لیے علامہ خادم حسین رضوی کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا تھا ہم دوسے تین ماہ کے اندر فرنچ سفیر کو ملک بدر کر دیں گے‘ یہ تاریخ اب زیادہ دور نہیں رہی‘علامہ مرحوم کے صاحبزادے سعد حسین رضوی حکومت کو وارننگ دے چکے ہیں‘ حکومت پریشان ہے کیوں کہ اس نے معاہدہ کرتے وقت یہ نہیں سوچا تھا فرانس کا سفیر اکیلا نہیں ہے‘ پوری یورپی یونین اس کے ساتھ کھڑی ہے۔

ہم اگر اسے نکال دیتے ہیں تو پھر پوری یورپی یونین کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات خراب ہو جائیں گے جس کے بعد یورپ درآمدی سودے منسوخ کر دے گا‘ پاکستان کی انڈسٹری تباہ ہو جائے گی اور کورونا کی شکار معیشت مزید زوال پذیر ہو جائے گی۔

وزیر خارجہ اس معاہدے کو سفارتی خودکشی قرار دے رہے ہیں‘ کابینہ نے مذہبی امور کے وفاقی وزیر نور الحق قادری کو درمیانی راستہ نکالنے کی ذمے داری سونپ دی ‘ یہ علامہ خادم حسین رضوی کے صاحبزادے سعد حسین رضوی کے ساتھ مذاکرات کریں گے لیکن میرا خیال ہے نورالحق قادری کام یاب نہیں ہو سکیں گے‘سعد حسین رضوی خود کو نیا قائد ثابت کرنے کا موقع ضایع نہیں کریں گے اور یوں بحرانوں کی شکار حکومت پر مزید دباؤ بڑھ جائے گا اور سینیٹ کے الیکشنز کے بعد یہ کابینہ نہیں چل سکے گی‘ وزیراعظم کابینہ میں بڑی ’’ری شفل‘‘ کریں گے۔

یہ سوال اب بہت اہم ہو گیا ہے کیا کابینہ کی ری شفل کے بعد حکومت بلیک اسٹارٹ ہو سکے گی؟ میرا خیال ہے نہیں! کیوں؟ کیوں کہ ڈیزاسٹرز صرف وفاقی حکومت تک محدود نہیں ہیں بلکہ پنجاب انتظامی فالج کی بدترین مثال بن چکا ہے‘ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کیا ہیں اور یہ کیا کر رہے ہیں؟ یہ اب پوری دنیا جان چکی ہے‘ دنیا بھر کی یونیورسٹیاں دو سال میں طالب علموں کو ایم اے کروا دیتی ہیں‘ یہ عام گریجویٹ کو ماسٹر آف فزکس‘ کیمسٹری یا ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن بنا دیتی ہیں لیکن پورا پنجاب مل کربھی عثمان بزدار کو اڑھائی سال میں وزیراعلیٰ نہیں بنا سکا۔

عوام تو دور عثمان بزدار کو ان کے اپنے وزراء اور سرکاری ملازم بھی وزیراعلیٰ نہیں مانتے‘ ان کے وزراء کے قلم دان بدل جاتے ہیں اور وزیراعلیٰ کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی‘ وزراء اپنے دفاتر بھی نہیں آتے‘ یہ صرف ٹویٹر اور فیس بک پر نظر آتے ہیں‘یہ اپنی حکومت کو ڈیفنڈ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

وزیراعظم کو اطلاع ملی پی ٹی آئی کے ایم پی ایز نے فیصلہ کیا ہے ہم سینیٹ کے الیکشنز میں کسی باہر کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے جس کے بعد حکومت کو وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو بھی منتخب کرانے کے لیے ٹھیک ٹھاک زور لگانا پڑے گا‘ وزیراعظم کو یہ بھی معلوم ہوا پاکستان پیپلز پارٹی حکومتی ایم پی ایز سے رابطے بڑھا رہی ہے لہٰذا آصف علی زرداری اس بار بھی سات ارکان کے باوجود پنجاب سے دو تین سینیٹرز نکال لیں گے شاید حکومت اسی خوف کی وجہ سے سینیٹ کے الیکشنز ’’اوپن بیلٹ‘‘ کے ذریعے کرانا چاہتی ہے لیکن یہ منصوبہ بھی شاید کام یاب نہ ہو سکے چناں چہ پنجاب بری طرح ’’بریک ڈاؤن‘‘ کا شکار ہے۔

یہ تقریباً شٹ ڈاؤن ہو چکا ہے اور حکومت کے پاس اسے ’’ری اسٹارٹ‘‘ کرنے کے لیے کوئی ’’بلیک اسٹارٹ سسٹم‘‘ موجود نہیں‘ بحرانوں کے اس موسم میں براڈ شیٹ ایک اور بحران ثابت ہو رہی ہے‘ تاریخ میں پہلی بار کسی ایمبیسی کے اکاؤنٹ سیز ہوئے ہیں‘ کابینہ کی منظوری کے بغیر براڈ شیٹ کو چار ارب 58 کروڑ روپے بھی منتقل ہو گئے ہیں۔

یہ بہت بڑا واقعہ ہے اور یہ واقعہ حکومت کے گلے پڑ جائے گا‘ حکومت براڈ شیٹ کے سی ای او کیوے موسوی کے انٹرویو کی بنیاد پر اس ایشو کو میاں نواز شریف کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر بات بن نہیں رہی‘ یہ پانچ ارب روپے گھوم گھام کر حکومت کے سامنے آ جاتے ہیں چناں چہ جس دن سپریم کورٹ نے اس پر سوموٹو نوٹس لے لیاحکومت کو اس دن بتانا پڑ جائے گا ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں تین کروڑ ڈالر کیوں تھے اور برطانوی حکومت نے کس کی اجازت سے یہ رقم سیز کی؟ یہ بھی بتانا پڑے گا ملک کے بڑے بڑے فیصلے واٹس ایپ پر کون کر رہا ہے؟

میں عمران خان کا ناقد ہوں لیکن آپ یقین کریں یہ ساری صورت حال دیکھ کر مجھے اب ان سے ہمدردی ہو رہی ہے‘ یہ پاکستان کو واقعی نیا پاکستان بنانا چاہ رہے تھے لیکن ان کی ٹیم کی نالائقیوں سے نیا تو دور پرانا پاکستان بھی نہیں چل رہا‘ یہ بری طرح بریک ڈاؤن کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے اگر خدانخواستہ ایک بار مکمل بریک ڈاؤن ہو گیا تو پھر ہم اسے ری اسٹارٹ کیسے کریں گے؟ کیوں؟ کیوں کہ ہمارے پاس تو پاور پلانٹس کو ری اسٹارٹ کرنے کا سسٹم موجود نہیں اور یہ تو ایٹمی ملک ہے‘ ہم اسے کیسے بلیک اسٹارٹ کر سکیں گے‘ ذرا سوچیے کیوں کہ گھبرانے کا وقت آچکا ہے‘ ملک اب واقعی میک آر بریک کی اسٹیج پر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *