بے معنی بحثوں میں الجھے دانشور اور ان کی موشگافیاں
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی فطرت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہِء نفع و ضرر کر نہ سکا
رات کا ایک بجا ہے اور آنکھیں نیند سے بوجھل۔ صبح سویرے سفر درپیش ہے۔ تکان کچھ زیادہ پریشان نہیں کرتی۔ سو کر اٹھیں گے تو انشاء اللہ ایک تازہ سحر کی نمود ہو گی۔ مسافرت طویل ہے تو کیا‘ اختتام پر ایک پورا دن آرام کیا جا سکتا ہے۔
اذیت دینے والی چیز دوسری ہے۔ موبائل فون‘ ان دوست کی گاڑی میں رہ گیا‘ کل جن کی رفاقت میں بسر کرنا ہے۔ وہ ایک بے نیاز سے آدمی ہیں۔ سازوسامانِ دنیا سے لاتعلق۔
تمام ٹیلی فون نمبر اسی میں محفوظ ہیں۔ تین ماہ قبل ایک شب برقی رو میں اتار چڑھاؤ ہوا تو جدید فون کا نازک الیکٹرانک سرکل جل گیا۔ سکرین سیاہ ہو گئی‘ سارے پتے اور سب نمبر راکھ ہو گئے۔ کمپیوٹر میں محفوظ کیے ہوتے۔ بیشتر وقت گھر سے باہر بیتا۔ شعیب بن عزیز کا شعر یاد آیا:
دیارِ شب کی مسافت نے کیا دیا ہم کو
ہوائے شام ہمیں اب گھروں میں رہنے دے
کوئی حادثہ نہیں ہوتا‘ جس میں سبق پوشیدہ نہ ہو۔ خدا کی بستی میں کوئی چیز بے سبب نہیں۔ سیاق و سباق ہوا کرتا ہے اور اسباب و عوامل۔ آدمی اگر خود ترحمی کا شکار نہ ہو اور دوسروں کو قصوروار کہنا شعار نہ کر لے‘ تو ہر مشکل سے آسانی طلوع ہو سکتی ہے۔
ایک اور نکتہ بھی اہلِ علم بیان کرتے ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ دل کا بوجھ اتار پھینکنا چاہیے‘ گزشتہ عشروں سے انگریزی کا لفظ کتھارسس کثرت سے برتا جانے لگا ہے۔ جی نہیں‘ چھوٹی یا بڑی‘ انفرادی یا اجتماعی ہر مشکل‘ خود کو تھام لینے کا مطالبہ کرتی ہے اور سوچ بچار کا۔ اگر یہ قرینہ اختیار کر لیا جائے تو استعداد بڑھتی ہے۔ مشکلات کا بوجھ اٹھانے کی ہمت اور حوصلہ مندی۔
اللہ نے زندگی کو امتحان کے لیے پیدا کیا‘ پکنک منانے کیلئے ہرگز نہیں۔ مسرتیں بھی بہت ہیں اور غم بھی بے شمار۔ ایسی خوشیاں کہ سنبھالی نہیں جاتیں ۔
ہر شب وہ سیاہ بوجھ کہ دل بیٹھ گیا ہے
ہر صبح کی لو تیر سی سینے میں لگی ہے
کوئی جدا ہو جاتا ہے اور لگتا ہے کہ زندگی کے مطلع پر چاند اب کبھی نہ چمکے گا‘ کبھی آفتاب طلوع نہ ہو گا :
اور جینے کا سبب کوئی نہیں
پہلے تُو تھا مگر اب کوئی نہیں
ایسا نہیں ہوتا‘ آج کسی نے مغرب کے ایک ممتاز ماہر نفسیات کا مضمون ٹیلی فون پہ پڑھ کر سنایا۔ قرآن کریم کی کتنی ہی آیات اور کتنی ہی احادیث‘ اس کے جلو میں طلوع ہونے لگیں۔ فرصت ملتی ہے تو انشاء اللہ اس کا ایک آدھ اقتباس لکھوں گا۔
آج کی شام ایک خیال جی سے لگا رہا۔ ہر نئی ایجاد اپنے ساتھ سہولت لے کر آتی ہے مگر مشکلات بھی۔ اس موبائل ہی کو لے لیجیے‘ اگر نہ ہوتا تو یہ شام زیادہ مہرباں ہوتی۔ ڈرائیور نے اطلاع دی کہ گاڑی خراب ہے‘ کل صبح کا سفر خطرے میں۔ اچانک نیا بندوبست کیسے ہو؟ بہت سا سامان کار میں پڑا ہے۔ تین گھنٹے ابتلا کی نذر ہو گئے۔ آخر کو یہ کھلا کہ کوئی خرابی نہیں‘ ڈرائیور بے چارہ گھبراہٹ کا شکار ہے۔
اس دوران کچھ ضروری پیغامات اِدھر اْدھر بھیجتا رہا۔ یہ کھلونا اگر نہ ہوتا تو اسلام آباد سے فرمائشوں کا سلسلہ بھی سر پہ سوار نہ ہو سکتا۔
برق اچانک ہی چمکی۔ ایک تازہ خیال اسی طرح پھوٹتا ہے۔ تمام بڑی ایجادات کی ایک فہرست بنا کر عالمگیر سروے کیا جا سکتا ہے کہ کس شے نے کتنی آسانی مہیا کی اور کتنے مسائل تخلیق کیے۔ ایجادات کا سلسلہ رْک نہیں سکتا۔ یہ خیال ہی مضحکہ خیز اور احمقانہ ہو گا۔زندگی آگے بڑھتی ہے اور اس کے ساتھ جینا ہوتا ہے۔ آج کوئی شخص انگریزی نہیں جانتا‘ اگر کمپیوٹر سے کام لینے کا ہنر نہیں رکھتا تو وہ وقت سے پیچھے رہ جائے گا۔ فرسودہ اور کمزور۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایجادات زندگی کو جوہری طور پر بدل سکتی ہیں؟ یہ دعویٰ کہ سائنس کے ارتقا نے حیات کو سہل کیا ہے‘ کتنا سچا ہے؟ یہ اعلان کہ بنی نوع انسان کے اصل محسن پیمبر نہیں بلکہ سائنس دان ہیں؟
اس رائے پر اصرار کرنے والے ہمارے بعض دوست بے حد جذباتی ہیں۔ میرے پسندیدہ امریکی اخبار نویس ایرک مارگولس نے لکھا تھا: ہوائی جہاز ایک اڑتا ہوا جیل خانہ ہے۔ ایسا ہی ہے‘ بخدا ایسا ہی۔ چارہ اس کے بغیر نہیں مگر جہاں وہ سہولت لایا ہے‘ وہیں عذاب بھی۔ کمپیوٹر؟ بجلی؟ برق رفتار کاریں؟ وغیرہ وغیرہ۔
موبائل کے کھو جانے پر یکایک ایسا لگا کہ سب کچھ چلا گیا۔ یوں کہ جیسے کسی جیتے جاگتے رفیق کو قبرستان میں چھوڑ آئے ہوں۔ سونے سے پہلے‘ ابھی لندن میں رانیا سے بات کرنی تھی کہ کیا آج بھی احمد نے اس کے چپس کھا لیے؟ نیلے سمندروں کے پار کسی کی خیریت پوچھنا تھی۔ جن دوست کی گاڑی میں فون دھرا رہ گیا‘ ان کا نمبر بھی موبائل کی یادداشت میں ہے۔ شہر پھیل گئے‘ ملنے جلنے والے درجنوں سے سینکڑوں اور ہزاروں ہوئے تو حافظے پر انحصار ترک ہوا۔ کیسی شاندار نعمت ہے‘ رفتہ رفتہ آدمی جس سے محروم ہوا۔
کل شب ایک دوست سے میں نے کہا‘ آپ کا نمبر میں نے ٹیلی فون میں درج نہیں کیا‘ زبانی یاد رکھا ہے۔ بچوں کا سا معصوم چہرہ۔ اس پر بچوں کی سی آنکھوں میں ایک چمک لہرائی۔ یہ خوشیاں‘ زندگی کی یہ خوشیاں۔ کس بے دردی سے آدمی نے انہیں اٹھا پھینکا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سب نام یاد رہا کرتے‘ سب چہرے۔ پندرہ برس ہوتے ہیں کہ نیویارک اور جدہ سے آنے والے اپنے بھائیوں کو دو برس کا گوشوارہ انگلیوں پر سنا دیا تھا۔ اب کیا ہوا کہ چند ایک کے سوا‘ کسی دوست کا ٹیلی فون نمبر بھی ازبر نہیں۔ ارے یہی کیا‘ شام ڈھلتی ہے تو یاد آتا ہے کہ سب سے زیادہ ضروری کام ہی بھول گئے۔
عمر بڑھنے کے ساتھ یادداشت‘ انتخاب پسند ہو جاتی ہے۔ خیرہ کن تنوع میں پھیلی برق رفتار زندگی کا تباہ کن دباؤ‘ کچھ بھی تو یاد رہنے نہیں دیتا۔ لان میں کچھ پھول اگانے تھے‘ گڑیا کے لیے چھوٹا سا کیک خریدنا تھا‘ صادق آباد میں میر صاحب کی لائبریری کے ساتھ ایک دن بسر کرنا تھا‘ آج شام تھر کے مکینوں پر ایک رپورٹ کے اعدادوشمار مرتب کرنا تھے‘ کچھ بھی یاد نہ رہا۔ ع
جنہاں باہجوں جھٹ نئیں سی لنگھدا او شکلاں یاد نہ رہیاں
ہوٹل کے کمرے میں فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف وہی شوخ آواز: ”خبر اچھی نہیں‘‘۔ کوفت میں کچھ اور اضافہ‘ شاید موبائل کھو گیا۔ ایک ذرا سا وقفہ جو برسوں پہ بھاری تھا اور پھر یہ ارشاد: آپ کو اسی فون پہ گزارا کرنا ہوگا‘ نیا خریدنے کا امکان پیدا نہ ہو سکا۔ بدبخت‘ میں نے کہا: تجھ سے توقع بھی یہی تھی۔ جوانی کے دوست ستم شعار ہوتے ہیں۔
نہیں‘ زندگی کبھی نہیں بدلتی۔ کبھی آسمان بدلے گا اور نہ زمین‘ اس کے مکین بھی نہیں۔ ان کی امنگیں اور آرزوئیں‘ ان کی حسرتیں اور امیدیں‘ ان کے خواب اور خیال‘ کچھ بھی نہیں۔ سائنس کے بل پر زندگی میں سکھ بڑھایا جا سکتا ہے اور نہ دکھ کم ہو سکتا ہے۔ صرف ان کی شکلیں تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ بے معنی بحثوں میں الجھے ہوئے دانشور اور ان کی موشگافیاں:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی فطرت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہِء نفع و ضرر کر نہ سکا


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *