قطر کی خبر اور صبر کا پھل

پانچ جنوری کو سعودی قصبے الااولہ میں خلیج تعاون کونسل(جی سی سی)کے سربراہ اجلاس میں قطر کی ساڑھے تین سالہ بری، بحری، فضائی ناکہ بندی کے خاتمے کے سمجھوتے پر دستخط ہو گئے۔خلیج جیسے حساس خطے کی اہمیت کے پیشِ نظر یہ ایک بڑی عالمی خبر تھی مگر پاکستانی میڈیا میں اگلے ہی روز گیارہ ہزارہ کانکنوں کے گلے کٹنے کی بہیمانہ واردات کے ردِعمل میں خلیج سے آنے والی یہ خبر دب کے رہ گئی۔

قطر اگرچہ امیر ملک ہے مگر سب سے بڑے ہمسائے سعودی عرب اور اس کے اتحادی متحدہ عرب امارات کی اجتماعی اقتصادی ، سیاسی و عسکری قوت کے تقابل میں ایک چھوٹی ریاست ہے۔لیکن جس ثابت قدمی سے قطر نے اس ناکہ بندی کا مقابلہ کیا وہ بذاتِ خود ایک ڈرامائی کہانی ہے۔

کہانی کی ابتدا دو ہزار چودہ سے ہوتی ہے جب قطر کے ہمسائے یو اے ای کے ساتھ اثر و رسوخ اور حریف معیشت ہونے کی رقابت کے تناظر میں قطر کو اس کا علاقائی حجم ( اوقات ) یاد دلانے کے لیے خلیج تعاون کونسل کے تین ارکان یعنی امارات ، سعودی عرب اور بحرین نے نو ماہ کے لیے قطر سے سفارتی تعلقات معطل کر دیے تاہم جی سی سی کے ایک اور رکن کویت کے امیر شیخ صباح ال احمد الصباح ( مرحوم ) کی کوششوں سے نومبر دو ہزار چودہ میں سہہ فریقی ریاض سمجھوتہ ہو گیا۔قطر نے یمن کے خلاف خلیجی جنگی اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی۔دسمبر دو ہزار سولہ میں سعودی شاہ سلمان نے دوہا کا دورہ کیا اور قطر نے جی سی سی کے مشترکہ اجتماعی سلامتی کے سمجھوتے کی بھی توثیق کر دی۔

مگر قطر کے چونکہ فلسطینی تنظیم حماس سے قریبی مراسم ہیں، لیبیا اور شام کی خانہ جنگی میں بھی اس کی پالیسی سعودی و اماراتی پالیسی سے متضاد رہی اور سعودی حریف ایران و ترکی سے بھی مراسم ہیں لہٰذا دو ہزار چودہ کے ریاض سمجھوتے کے باوجود لاوا اندر ہی اندر پکتا رہا۔جب ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے بیرونی دورے کے لیے ریاض کا انتخاب کیا اور ٹرمپ کے داماد جیررڈ کشنر کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے مراسم اور ہم آہنگی اظہر من الشمس ہو گئی تو ٹرمپ کی واشنگٹن روانگی کے دو ہفتے بعد ہی پانچ جون دو ہزار سترہ کو اچانک سعودی عرب، امارات ، بحرین اور مصر نے اعلان کیا کہ دہشت گردی کی حمایت اور ایران سے قربت کی پاداش میں وہ قطر کی مکمل ناکہ بندی کر رہے ہیں۔

فوری طور پر قطر سعودی سرحد بند کر دی گئی۔قطر ایئرویز گراؤنڈ ہو گئی اور امارات نے ہزاروں قطری شہریوں کو ملک سے نکلنے کا حکم دے دیا۔ٹرمپ نے بھی اس ناکہ بندی کی بلاواسطہ حمایت کرتے ہوئے قطر سے اپنی متنازعہ پالیسیوں پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کر دیا۔

مگر قطر نے اوسان بحال رکھے۔سعودی سرحد بند ہونے سے اشیائے خورونوش کی رسد فوری طور پر معطل ہوگئی۔ایران نے اعلان کیا کہ وہ روزانہ ایک ہزار ٹن پھل ، سبزیاں اور ساٹھ ٹن گوشت فضائی راستے  سے دوہا بھیجتا رہے گا۔ترک پارلیمان نے حریف خلیجی ممالک کی جانب سے قطر کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کے خدشے کے پیشِ نظر فوری طور پر تین ہزار ترک فوجی وہاں تعینات کرنے کی منظوری دے دی۔

اس بار بھی امیرِ کویت نے صلح صفائی کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔چند ماہ بعد ناکہ بندی کرنے والے چار ممالک کی جانب سے تنازعے کے حل کے لیے تیرہ نکاتی مطالباتی دستاویز جاری کی گئی۔ اس میں ایران سے تعلقات میں کمی اور ترک فوجی اڈے کو تالا لگانے کے ساتھ ساتھ یہ شرط بھی تھی کہ الجزیرہ کی ’’ جانبدارانہ و تنقیدی نشریات ’’ کو لگام دی جائے مگر قطر نے پورا شرائط نامہ مسترد کر دیا۔

اس ناکہ بندی کے پورے عرصے میں قطر ایئرویز کو پانچ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔قطر کو اپنے سوورن فنڈ سے روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لیے تینتالیس ارب ڈالر نکلوانے پڑے۔مگر قطری قیادت کو یقین تھا کہ وہ یہ سختی جھیل سکتی ہے۔کیونکہ قطر گیس کی تیرہ فیصد عالمی پیداوار فراہم کرتا  ہے۔اس کی تینتیس فیصد برآمدات مایع گیس کی ترسیل پر مشتمل ہیں۔ایران سے نبھاتے رہنا قطر کی سیاسی و اقتصادی ضرورت ہے کیونکہ خلیج کے علاقے میں دونوں ممالک گیس کے سب سے بڑے عالمی ذخیرے(جنوبی پارس)میں نوے کی دہائی سے شراکت دار ہیں۔اس ذخیرے کا دو تہائی قطری حدود میں اور ایک تہائی ایرانی بحری حدود میں ہے۔

قطر امریکا کے علاقائی اسٹرٹیجک مفادات کا بھی اہم ستون ہے۔ خطے میں امریکی فضائیہ کا سب سے بڑا بیس اور امریکی سینٹرل کمان کا ہیڈکوارٹر قطر ہے۔

ناکہ بندی کے باوجود قطر نے دو ہزار بائیس کے فٹ بال ورلڈ کپ کی تیاریوں میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ساڑھے تین برس کے عرصے میں اس کی فضائیہ بارہ جنگی طیاروں سے بڑھ کر چھیانوے طیاروں کے بیڑے میں تبدیل ہوگئی۔غیر یقینی ہمسائیوں کی غیر یقینی سہولتوں کے چنگل سے آزاد ہونے کے لیے قطر ایک بڑی بندرگاہ بھی تعمیر کر رہا ہے جس پر اب تک ساڑھے سات ارب ڈالر صرف ہو چکے ہیں۔

پابندیوں سے قبل قطر سو فیصد پھل اور سبزیاں درآمد کرتا تھا۔مگر آج لگ بھگ پچیس ہزار ایکڑ رقبے کو کھارے سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے عمل سے قابلِ کاشت بنا لیا گیا ہے۔قطری حکومت کا دعوی ہے کہ ملک اگلے دو برس میں پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار میں خود کفیل ہو جائے گا۔

اسی طرح پابندیوں سے قبل دودھ کی سو فیصد مصنوعات درآمد کی جاتی تھیں۔مگر آج نوے فیصد ڈیری پروڈکٹس کی ضروریات مقامی سطح پر پوری کی جا رہی ہیں۔یہ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ اعلیٰ امریکی و آسٹریلوی نسل کی لگ بھگ دس ہزار گائیں درآمد کروا کے انھیں ٹھنڈے باڑوں میں رکھا گیا۔

پابندیوں کے دور میں ترک کمپنیوں نے خالی جگہ پر کی۔اس وقت لگ بھگ دو سو ترک کمپنیوں نے قطر میں اٹھارہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔دوطرفہ تجارت میں چون فیصد اضافہ ہوا ہے۔پابندیوں اور کوویڈ کے سبب عالمی اقتصادی سست روی اور گیس کی مانگ میں کمی کے باوجود آئی ایم ایف نے رواں سال کے لیے قطر کی قومی آمدنی میں ڈھائی فیصد اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔

قطر نے ساڑھے تین برس اپنی خارجہ پالیسی کو احتیاط کے رسے پر چلایا۔سب سے بڑے ہمسائے سعودی عرب کی قیادت کے بارے میں اعلیٰ سطح پر منفی بیان بازی سے مکمل گریز کیا گیا کیونکہ بحران کے حل کی چابی ریاض میں تھی۔البتہ ناکہ بندی کی قانونی تشریح کے لیے عالمی عدالتِ انصاف کا دروازہ ضرور کھٹکھٹایا۔ عدالت نے رائے دی کہ اس ناکہ بندی کے فریق بین الاقوامی قوانین کے تحت خود پر عائد ذمے داریوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

قطر نے تعلقات کی انتہائی ابتری کے باوجود امارات کے لیے گیس کی ترسیل ( ڈولفن گیس پروجیکٹ) معطل نہیں کی۔ٹرمپ انتظامیہ کے جانبدارانہ رویے کے باوجود افغانستان سے امریکا کی گلو خلاصی کے لیے امریکا اور طالبان کے مابین دوہا مذاکرات کی میزبانی جاری رکھی۔

ساڑھے تین برس کے اس سخت عرصے میں قطر نے اپنی خوداحتسابی بھی کی۔وہ تمام مقامی نجی فلاحی تنظیمیں جن کی بیرونِ ملک فنڈنگ پر پہلے کوئی روک ٹوک نہیں تھی ان کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے اور باقاعدہ و شفاف بنانے کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی ادارہ قائم کیا گیا۔

قطر کی اٹھائیس لاکھ آبادی میں سے لگ بھگ بیس لاکھ آبادی غیرملکی کارکنوں پر مشتمل ہے۔ناکہ بندی کے دور میں بین الاقوامی ادارہِ محنت (آئی ایل او) کی سفارشات کی روشنی میں کفالہ سسٹم اور محنت کے اوقاتِ کار کو بہتر بنانے کے لیے قانون سازی بھی کی گئی۔غیر ملکی باشندوں کی آمد و رہائش سے متعلق قوانین میں بھی کھلے پن کا دائرہ بڑھایا گیا اور سیاسی اصلاحات کے ایک حصے کے طور پر اب نامزد کے بجائے ووٹوں سے منتخب شوریٰ متعارف کروانے پر بھی غور ہو رہا ہے۔

المختصر یہ کہ قطر کے ہمسائیوں کو ساڑھے تین برس کی ہو ہا کے بعد بھی تعلقات کی بحالی میں خود ہی غیرمشروط پہل کرنا پڑی۔اور کیا ہوتی ہے کامیاب خارجہ پالیسی ؟ اس عرصے میں قطر نے کیا گنوایا؟

پنجابی کی مثال ہے ’’کبے نوں لت پئی تے اودا کب نکل گیا‘‘(کبڑے کی کمر پر لات پڑی تو اس کا کبڑا پن ختم ہو گیا)۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *