رئوف طاہر بھی رخصت ہوئے، بالکل اچانک… خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا۔ خبر جس نے بھی سنی یقین ہی نہیں کیا۔ ہر دم متحرک زندگی سے بھرپور‘ چاک و چوبند انسان کیسے اس طرح اچانک مر سکتا ہے لیکن ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ملک عدم بہت دور سہی، نظر و خیال کی حدوں سے بھی دور لیکن اس کی مسافت ایک تانبے میں ہی طے ہو جاتی ہے۔ پلک جھپکی اور انسان ہے سے تھا ہو گیا۔
مرحوم رئوف طاہر ہمہ صلاحیت صحافی تھے۔ رپورٹر‘ ایڈیٹر‘ نثر نگار‘ کالم نویس اور تجزیہ کار۔ ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا بلکہ دھاک بٹھائی۔ جس طرح بولنے میں دبنگ تھے اسی طرح لکھنے میں بھی لیکن تحریر میں زور دلائل کاتھا‘ اس لب و لہجے اور ذخیرہ لغت کا نہیں، جس کا چلن آج کل ہے۔ رئوف مرحوم صحافیوں کے اس حلقے سے تعلق رکھتے تھے دو تین عشرے پہلے تک جسے اسلام پسند کہا جاتا تھا۔ سوویت یونین کے آنجہانی ہونے کے بعد یہ اصطلاح متروک ہوتی گئی کہ ملک میں تقسیم کا رنگ ہی بدل گیا۔ اب لکیر کے اس طرف استحصال کے علمبردار اور اشرافیہ کے خوشہ چین ہیں تو دوسری طرف آئین‘ جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت کرنے والے جنہیں حرف عام میں بھارتی ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ رئوف طاہر اصطلاح کے متروک ہو جانے کے بعد بھی بدستور اسلام پسند رہے اور ان کی اسلام پسندی بائی ڈیفالٹ آئین‘ جمہوریت اور انسانی حقوق کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے تھی۔ گزشتہ چند برسوں سے اسلام پسند صحافیوں کا حلقہ بھی بٹ گیا۔ ایک اچھی خاصی کھیپ آمریت اور فسطائیت کی علمبردار بن گئی اور استحصال کے جواز‘ اشرافیہ کی بالادستی کے لیے سرگرم ہو گئی۔ اس کھیپ نے جمہوریت کو گالی دینے‘ سیاست دانوں کو کرپٹ قرار دینے اور اشرافیہ کو فرشتہ ثابت کرنے ک کامیاب مہم بھی چلا رکھی ہے۔ رئوف طاہر بھی اس دھڑے میں جا کر ارب نہیںتو کروڑ پتی بن سکتے تھے لیکن انہوں نے اصولوں کو عزیز رکھا اور کم آمدنی پر گزارا کیا۔ خود بھی رزق حلال کھایا اور بچوں کو بحی حلال ہی کا لقمہ کھلایا۔ جماعت اسلامی کے ساتھ عملی تعلق تھا لیکن جماعت اشرافیہ اور استحصالیہ کے ہم سفر بن گئی تو دوری اختیار کرلی۔ فطرتاً بلند آہنگ تھے۔ آہستہ کلامی بھی ساتھ کے کمرے میں سنی جاتی۔ چار پانچ عشروں کی سیاست کے شاہد بھی رہے اور شریک بھی۔ ہر قومی تحریک قریب سے دیکھی اور یادیں محفوظ کرلیں۔ جو ان کے کالموں میں زندہ ہوتیں۔ جب بھی انہوں نے ماضی کے دریچے پلٹے کتنی بھولی بسری یادیں ابھر کر سامنے آ گئیں۔ ان کے کالم کی زبان درست‘ لہجہ شائستہ اور تحریر رواں دواں ہوتی۔ شائستہ اطوار ہونے کے باوجود بے تکلف تھے۔ کردار کے اعتبار سے سراپا ایک سعید روح۔ ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیہ۔ الوداع رئوف طاہر‘ تیری لحد پر کھلیں سدا گلاب کے پھول۔
٭٭٭٭٭
لاہور میں ایک شخص نے اپنی بیوی اور دو بچوں کو آلگ لگادی۔ یہ سانحہ باٹا پور میں پیش آیا۔ بچوں کی عمریں 12 اور 10 سال ہیں۔ اس واقعہ سے ایک دن پہلے مظفر گڑھ کی بستی کوٹ لاشاری میںدادا نے اپنی دو کمسن پوتیوں پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ ڈیڑھ سال کی مسوہ اور تین سال کی غروہ کے جسم جب تک کوئلہ نہیں بن گئے دادا پاس کھڑا رہا۔ کچھ دن پہلے اسلام آباد میں ایک سوتیلی ماں نے چھ سال کے بچے کو کپڑوں میں لپیٹ کر باندھ دیا پھر آگ لگا دی۔ بچہ گھنٹہ بھر زندہ حالت میں جلتا رہا۔ اس پر نزع کا عالم کتنی دیر تک رہا ہوگا۔ کوئی اندازہ کر سکتا ہے نہ بتا سکتا ہے۔ ایسے واقعات پاکستان میں بڑھتے جا رہے ہیں۔
سماجی ماہرین ایسے واقعات کی سماجی اور معاشی وجوہات بتائیں گے اور وہ درست بھی ہوں گی لیکن سوال یہ ہے کہ انسان کے اندر بے رحمی کا وہ شیطان کیوں ہے جو کچھ حالات میں ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔
کچھ مہینوں سے بچوں کے قتل بے تحاشا بڑھ گئے ہیں اور ہر واقعے کی تفصیل پڑھ کر دل لرز اٹھتا ہے۔
انسان کے ظلم سے جانور بھی محفوظ نہیں بلکہ جانور انسان سے بھی زیادہ مظلوم ہیں۔ کل ہی ٹویٹر پر جنوبی سندھ کے کسی گائوں کی ایک ویڈیو آئی ہے جس میں ایک ظالم زمیندار نے مظلوم اور بے زبان گائے کے چاروں پائوں کاٹ دیئے۔ بے چاری گائے چارہ چرتی اس کے کھیت میں آ گھسی تھی۔ اس درندگی سے بہتر تھا وہ گائے کو جان سے بھی مار دیتا۔ وہ بھی ظلم ہوتا لیکن اس سے بہرحال کم۔
٭٭٭٭٭
برسبیل تذکرہ‘ ہمارے ہاں محاورہ ہے کہ فلاں شخص تو اللہ میاں کی گائے ہے۔ یعنی بے وقوف۔ یہ محاور اس مفروضے پر ہے کہ گائے بیوقوف جانور ہے۔ حالانکہ سچائی اس کے برعکس ہے۔
ہمارے ہاں یعنی برصغیر پاک و ہند میں بلکہ پورے ایشیا میں گائے بھینس پالنے کا رواج نہیں ہے۔ یعنی صرف باندھ کے رکھنے کا رواج ہے‘ جب تک دودھ دیتی رہے چارہ ڈالتے رہیں گے‘ پھر ذبح کردیں گے لیکن یورپ اور امریکہ میں بہت سے لوگ گائے کو بطور PET پالتے ہیں۔ ان کے تجربات کچھ اور ہیں۔
مختصر یہ کہ گائے فٹ بال کھیلنے کی شوقین ہے۔ یہ تین سو کے قریب آوازیں پہنچان سکتی ہے۔ یہ سائنس دانوں نے بتایا ہے۔ ایک خاتون نے اپنی گائے کے لیے الگ کمرہ بنایا اور فوم بچھایا۔ چند دن کی تربیت کے بعد گائے عادی ہو گئی کہ گوبر موتر کرنے کے لیے باتھ روم جانا ہے‘ اپنے بیڈ روم کو صاف ستھرا رکھنا ہے۔ گائے کو جب بوچڑ خانے لے جایا جاتا ہے تو اس کی چھٹی حس بتا دیتی ہے کہ وہ ذبح ہونے جا رہی ہے۔ کبھی کسی بوچڑ خانے جا کے دیکھئے‘ گائے روتی ہوئی ملے گی۔ اس کے آنسو زمین پر گرتے نظر آئیں گے۔ گائے اپنے رشتے داروں کو بھی پہنچاتی ہے‘ وہ اتنی ہی حساس اور دکھی ہونے والی ہے جتنا کہ انسان۔
تمام جانور ہیں‘ خدا نے صرف ایک جانور کو بے وقوف بنایا اور وہ ہے انسان۔ خدا نے اس کے سوا کسی بھی جانور کو ظلوم‘ جہول اور خذول نہیں کہا۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *