فن کے نام پر گندگی کے ڈھیر!

میں کسی زمانے میں پنجابی فلمیں بھی دیکھتا تھا اور اس کے بعد سے آج تک میں ان فلموں کے اس ’’شاعر‘‘ کو ڈھونڈ رہا ہوں جس کے ذہن کے پاتال کا اندازہ لگانے کے لئے اس کے دماغ کی ’’کھدائی‘‘ کرنا پڑے گی تاکہ پتہ تو چلے کہ وہ اتنی گندی باتیں سوچتا کیسے ہے۔ اس کے بعد اس گلوکارہ کی تلاش میں بھی ہوں جس نے یہ گانے گائے ہیں اور اس موسیقار کی تلاش بھی جاری ہے جس کے ضمیر نے ان گانوں کی دھن بنانے پر رضا مندی ظاہر کی۔ اسی طرح پروڈیوسر، جن اداکارائوں پر یہ گانے فلمائے گئے اور سنسر بورڈ کے وہ ارکان جنہوں نے یہ گانے ’’پاس‘‘ کئے میں مجبوراً ان لوگوں کو ڈھونڈ رہا ہوں کیونکہ یہ کام تو پولیس کا تھا جو انہیں تلاش کرنے کے بعد تھانے کے ’’ڈرائنگ روم‘‘ میں زمین پر بٹھا کر یا لٹا کر اپنے روایتی طریقے سے انہیں بھرپور ’’خراج تحسین‘‘ پیش کرے، اس ’’خراج تحسین ‘‘ کا اولین حصہ دراصل پنجاب کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے جس کے عین ناک تلے یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ دوسری طرف ہماری دہری اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ اپنے کالم میں، میں ان بدبو دار گانوں کا ذکر تو کر سکتا ہوں۔ ان کے کچھ ’’نمونے‘‘ پیش نہیں کر سکتا اس پر مجھے ایک پرانی پاکستانی فلم ’’سات لاکھ‘‘ کا یہ ڈائیلاگ یاد آ رہا ہےکہ ’’سات لاکھ روپے تم گن سکتے ہو۔ خرچ نہیں کر سکتے‘‘

سو آپ ان گانوں کے بول میرے کالم میں پڑھ نہیں سکتے۔ پرائیویٹ تھیٹروں میں دو ہزار سے پانچ ہزار روپے تک کا ٹکٹ خرید کر آپ نہ صرف ان گانوں کے بول سن سکتے ہیں (اگر ان دنوں تھیٹر کھل گئے ہیں) بلکہ یہ ’’بول و براز‘‘ عملی صورت میں دیکھ بھی سکتے ہیں۔ پنجاب کے تھیٹروں میں کامیڈی کے نام پر جو نام نہاد ڈرامے دکھائے جاتے ہیں ان کی خصوصیت ’’صرف فحش گانوں پر فحش ڈانس ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں ہماری تمام اقدار کو پائوں تلے روندا جا رہا ہے۔ ’’اداکار‘‘ اور ’’اداکارائیں‘‘ ایک دوسرے کی بیٹیوں، بہنوں اور مائوں کے حوالے سے جو باتیں کرتے ہیں اگر ان ’’فنکاروں‘‘ کے اہل خانہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کے باوجود ان کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوں تو یہ بڑے ’’حوصلے‘‘ کی بات ہے۔ ان ڈراموں میں کالی رنگت کا بھی مذاق اڑایا جاتا ہے۔ چھوٹے قد کو استہزا کا نشانہ بنانا بھی عام ہے۔ ’’تماشائیوں‘‘ کو ہنسانے کے لئے یہ ’’فنکار‘‘ ایک دوسرے کے سروں اور کئی دفعہ چہروں پر بھی جوتے مارتے ہیں۔ ان ’’ڈراموں‘‘ میں امرد پرستی کا پرچار بھی ہوتا ہے اور اس کے فائدے بیان کئے جاتے ہیں۔ مختلف قومیتوں کے لوگوں کو مذاق کا نشانہ بنانا بھی ان ’’ڈراموں‘‘ میں مرد ’’اداکار‘‘ خود کو ’’کنجر‘‘ اور خواتین ’’اداکارائیں‘‘ خود کو بالواسطہ طور پر ’’طوائف‘‘ کہلانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ یہ پرائیویٹ تھیٹر نہ صرف ہماری تمام اقدار کو تہس نہس کرنے پر تلا رہا بلکہ قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کا ’’فریضہ‘‘ بھی انجام دیتا ہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور اس ساری صورتحال میں ایک عبرتناک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اوپر کی سطور میں میں نے جن ’’فنکاروں‘‘ کا ذکر کیا ہے‘‘ ان کی ایک بڑی تعداد ’’حاجیوں‘‘ اور ’’حاجنوں‘‘ پر مشتمل ہے، ان میں سے کچھ تو پانچ پانچ حج بھی کر چکے ہیں۔ اس گروہ کے ارکان فحش گوئی میں وقفہ کے دوران نماز بھی ادا کرتے ہیں۔ ان سب کو اس ’’نیک رستے‘‘ پر ایک مولانا نے چلایا ہے جن کی طرف سے انہیں یہ سب کچھ کرنے کی اجازت ہے، پابندی صرف یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ نماز روزہ کرتے رہیں۔ حج اور عمرے بھی کریں اور سمجھیں کہ اس کے نتیجے میں لکڑ ہضم، پتھر ہضم اور اس کے علاوہ بھی سب کچھ ہضم ہو جائے گا۔ اس سارے معاملے کا ایک درد ناک پہلو یہ بھی ہے کہ متذکرہ ڈراموں کی سی ڈیز تیار کرنے والوں میں بھی حاجی صاحبان شامل ہیں۔ یہ گندگی اگر چند تھیٹروں تک محدود رہتی تو اس کے نقصانات کا دائرہ محدود ہوتا لیکن یہ سی ڈیز کی صورت میں کیبلز پر بھی دکھائی جاتی ہیں اور یوں یہ ناقابل برداشت مواد ہر گھر کے دروازے پر دستک دیتا نظر آتا ہے۔ تاہم خدا کا شکر ہے کہ اس قبیل میں چند افراد ایسے بھی ہیں جو واقعی فنکار ہیں اور وہ کسی بھی صورت اس گندگی میں ملوث ہونے کے لئے تیار نہیں۔ انہوں نے فن کے منہ پر کالک ملنا پسند نہیں کیا بلکہ وہ خود اس ٹولے کے خلاف مہم چلاتے ہیں جس پر ایک فنکار کو قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اب وہ تھک ہار کر بیٹھ گیا ہے جبکہ میری خواہش ہے ان کالی بھیڑوں کے خلاف جہاد کا آغاز نئے سرے سے کیا جائے جو فنکار برادری کو بدنام کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اس ضمن میں پنجاب حکومت کا جو فرض ہے وہ یقیناً اس سے باخبر ہے لیکن اس نے ابھی تک ان لوگوں پر ہاتھ ڈالنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا جو اقدار کی پامالی کے علاوہ کھلم کھلا ملکی قوانین کا بھی عملی طور پر مذاق اڑا رہے ہیں۔

اعلامیے کے مطابق ایل این جی اور مقامی گیس پر چلنے والے پمپس بھی بند رہیں گے

سوشل میڈیا پیغام میں جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ میری کابینہ کے ارکان میں بے حد ٹیلنٹ ہے، جس پر فخر ہے

جلسہ سے پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اور دیگر قائدین خطاب کریں گے

5سال تک کی عمر کے 24 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

امریکا میں کل ہلاکتیں 3 لاکھ 82 ہزار سے بڑھ گئیں

گلگت بلتستان کے ضلع استورمیں دو روز سے جاری برفباری کی وجہ سے متعدد مقامات پر راستے بند ہوگئے

بھارتی فوج نے ایل او سی پر بڑوھ اور خنجر سیکٹر میں بلا اشتعال فائرنگ کی ہے۔

پنجاب بار کونسل ( پی بی سی ) میں توڑ پھوڑ اور خوف و ہراس پھیلانے پر 8 وکلا ء کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

قومی کرکٹر کی گاڑی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ شاید انھیں بھی شدید چوٹیں آئیں ہوں، تاہم ان کی جانب سے اس معاملے میں بیان سامنے آگیا

اسلام آباد کے تھانہ رمنا کے علاقہ میں پولیس اہلکار کے تاجر پر تشدد کے معاملہ پر ڈی آئی جی آپریشنز کی ہدایت پر واقعے کی انکوائری میں کانسٹیبل عمرقصور وار قرار دیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے اسلام آباد سے جاری ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ قومی وطن پارٹی اورپیپلز پارٹی کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوئے۔

برطانیہ میں گرانڈ سینٹرل ٹرین نے اپنی سروسز معطل کردی ہیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق گرانڈ سینٹرل ٹرین نے جنوری اورفروری میں اپنی تمام سروس معطل کردی ہے۔

ساتھ میں انھوں نے قائدِاعظم محمد علی جناح کے بارے میں لکھا کہ وہ ایک وفادار، سچے و پکے مسلمان، ایک عظیم رہنما اور ترک دوست تھے

پاور ڈویژن نے مفتاح اسماعیل کے اعداد و شمار پر مبنی جواب دے دیا ۔

بجلی کے طویل بریک ڈاؤن پر سینٹرل پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ ( سی پی جی سی ایل ) گدو کے 7 افسران و ملازمین کو معطل کردیا گیا ہے ۔

نصیر ترابی نےپاکستان ٹیلی وژن کےکئی مشاعروں میں نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ان کا شمار صفِ اول کے اردو شعراء میں ہوتا ہے۔ کافی عرصے تک کالمز بھی لکھتے رہے۔


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *